اسلام آباد کے شہری پانی کے صاف پانی سے محروم،منرل واٹر کمپینزسے مہنگے داموں خریدنے پر مجبور…..صباحت خان

واٹر ایڈ پاکستان کی 2020-21 رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 21 ملین لوگوں کے پاس گھر کے قریب صاف پانی نہیں ہے جبکہ 133 ملین اب بھی آلودہ پانی پیتے ہیں ۔ جس کی بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی پائیدار خدمات کی تعمیر کے لیے چیلنجز کو بڑھا رہی ہے۔پاکستان کا شمار دس ملکوں میں ہوتا ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں۔ لوگوں کے پاس غیر محفوظ ذرائع سے غیر محفوظ پانی حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔رپورٹ کے مطابق ملک بھرمیں پانی کے 89 سے 84 فیصد ذرائع انسانی استعمال کے متعین معیار پر پورا نہیں اترتےجس کی وجہ سے تیس لاکھ سے زائد لوگ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

ملک بھر میں صاف پینے کے پانی کی قلت کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو ہر دن کے ساتھ صاف پانی کی قلت بحران کی صورت بھی اختیار کررہی ہے جس کا شکار نہ صرف دیہی علاقے بلکہ ملک کے بڑے شہر بھی ہو رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا دارالحکومت اسلام آباد بھی مسلسل کئی سالوں سے پانی کے مسئلے سے دوچار نظر آتا ہے نہ صرف گرمی کے موسم میں بلکہ سردیوں میں بھی رہائشی صاف پانی سے محروم رہتے ہیں اور شہری منرل واٹر کمپنیوں سے مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں ۔

نام ظاہر نہ کرتے ہوئے سی ڈی اےکے بیٹ رپورٹر کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں پانی کی کمی کی بڑی وجہ پانی کے لائنوں میں غیر قانونی کنکشن ہیں جو گھروں کے ساتھ ساتھ پانی سپلائی کرنے والی پانی کی کمپنیوں کی جانب سے بھی چوری سے لگائے گئے ہیں ۔ مرکزی سپلائی لائنوں سے پانی کی بڑھتی چوری کی وجہ سے رواں سال انتہائی گرم موسم میں پانی کی شدید کمی کا اندیشہ رہتا ہے۔ گزشتہ دونوں سی ڈی اے کی جانب سے اسلام آبادکے اندر 15 کے قریب غیر قانونی پانی کے کنکشن ختم کیے ہیں ۔ سی ڈی اے چیئرمین کو بھی آگاہ کیا گیا ۔ فراہم ہونے والی معلومات کے مطابق شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے سسٹم میں 18 نئے فلٹریشن پلانٹس کی تعمیر کے بعد اب شہر میں کل 103 فلٹریشن پلانٹس مکمل طور پر کام کر رہے ہیں۔ تمام پینے کے فلٹریشن پلانٹس سے فراہم کیے جانے والے پانی کے ٹیسٹ سی ڈی اے اور پی سی آر ڈبلیو آر لیبارٹریز کے ذریعے باقاعدگی سے کیے جاتے ہیں تاکہ شہریوں کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق پینے کا صاف پانی فراہم کیا جا سکے۔تمام فلٹریشن پلانٹس 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں تاکہ شہریوں کو ان کی سہولت کے مطابق پینے کا صاف پانی مل سکے۔فلٹریشن پلانٹس کی دیکھ بھال اور پانی کے معیار کی نگرانی این جی اوز کے تعاون سے کی جا رہی ہے تاکہ فلٹریشن پلانٹس کی بروقت دیکھ بھال باقاعدگی سے کی جا سکے۔

اسلام آباد کے جی سیون کے رہائشی نور وقاص کا پانی کی قلت کے حوالے سے کہنا ہے کہ ہمارے خاندان کا ذریعہ معاش روزمرہ کی مزدوری پر ہے ۔ایسے میں پانی بھی خرید کر پینے کے لیے ہماری گنجائش نہیں ہے جہاں سے بھی صاف پانی پینے کا مل سکے بھرتے ہیں ۔ اسلام آباد کرسچن کالونی کے رہائشی ہیں ہماری کمیونٹی میں معاشی حالات ایسے نہیں ہیں کہ پانی جیسی بنیادی ضرورت بھی خرید کر استعمال کریں ۔فلٹریشن پلانٹس سے پانی بھرنا بھی تب ممکن ہے جب گھر کے قریب ہو، بہت سے پلانٹس بند بھی ہیں اور اگر کھولا ہوا ہو تو رش ہوتا ہے کہ انسان صرف دن بھر لمبی لمبی لائنوں میں پانی بھرنے کے لیے کھڑا رہے۔ پانی کا مسئلہ اسلام آباد کا پرانا مگر بنیادی ہے ۔ یہ امیروں کا شہر ضرور ہے مگر غریب بھی یہاں کہ باس ہیں اس لیے سی ڈی اے پانی کی سہولت فراہم کرنے میں ہماری کمیونٹی کو مت بھولے۔

ایف ٹن کی رہائشی امبرگیلانی کا کہنا ہے کہ پینے کا صاف پانی اسلام آباد کا پرانا مسئلہ ہے جس کو حکومت اور انتظامیہ سنجیدہ لینے سے قاصر نظر آتی ہے جس کی بڑی وجہ منرل واٹر فراہم کرنے والی کمپنیز ہیں جو اس مسئلہ کا فائدہ اٹھا کر مہنگے داموں پانی کی بوتل گھروں میں فراہم کرتے ہیں اور سردی ،گرمیوں میں دام بھی زیادہ کر دیتے ہیں ۔ کئی سالوں سے ہمارے گھر میں کمپنی سے پانی خرید کر استعمال کرتے ہیں ۔ شہریوں کی خاموشی ، کمپنیز کا بڑھتا کاروبار اور انتظامیہ کی جانب سے پانی کی سہولت فراہم کرنے میں سنجیدہ اقدامات نہ اٹھانا اس مسئلے کے حل کی طرف حکومتی سطح پر کوئی بھی لائحہ عمل طے نہیں کیاجا سکا۔

نام نہ ظاہر کرتے ہوئے آئی ایٹ میں گرلز ہوسٹل کی مالک خاتون کا کہنا ہے میرے پاس ہوسٹل میں پچاس کے قریب خواتین رہائش پذیز ہیں جن کو پانی کی سہولت فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے ۔ پینے کا صاف پانی خریدنا گنجائش میں نہیں آتا اور سی ڈی اے سے پانی کا ٹینگر مانگتے ہیں تو اس کے لیے باری آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور گرمی کے موسم کے حساب سے رقم بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات میں کاروبار کرنا اور سہولیات فراہم کرنا مشکل ترین ہو جاتا ہے۔ زمین سے بور کا پانی ویسے بھی گرمیوں میں نہ ہونے کے برابر ہو جاتا ہے۔ پارلیمنٹ میں وفاق کے صاف پانی کے پینے کے مسئلے سنجیدگی سے حل کرنے کے بارے میں اقدامات اٹھانے چاہیے۔ ملک کے دارلحکومت کا یہ حال ہے تو دوسرے شہری کس طرح سے پانی کے مسئلے کا سامنا کرتے ہو ں گے ۔

اسلام آباد میں صاف پانی کی قلت کے حوالے سے خصوصی بات کرتے ہوئے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اسلام آباد کے چیئرمین نور الامین کا کہنا ہے کہ سی ڈی اے کی جانب سے پانی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے مستقبل میں ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اس وقت شہر بھر میں 95 فلٹریشن پلانٹس فعال ہیں ،مزید قائم کرنے کے حوالے سے کام کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شہربھر کے پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مزید 95 پلانٹس قائم کئے جائیں تو شہر کے پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اسلام آباد کو یومیہ سات کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے جبکہ اس کی یومیہ ضرورت 17 کروڑ گیلن ہے۔شہر کو فراہم ہونے والا پانی سملی ڈیم، خان پور ڈیم اور مقامی ٹیوب ویل مرکزی ذریعہ ہیں۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورس کی اسلام آباد کی 2010 پینے کے پانی کے فلٹریشن پلانٹس کی مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 32 فلٹریشن پلانٹس کی نگرانی کی گئی۔تمام فلٹریشن پلانٹس کے تجزیاتی نتائج کا ڈبلیو ایچ او کے ساتھ موازنہ کیا گیا۔تمام فلٹریشن پلانٹس کے پانی کے نمونے فزیکو کیمیکل واٹر کوالٹی پیرامیٹرز کے حوالے سے محفوظ پائے گئے۔ اس رپورٹ کے بعد کسی ادارے کی جانب سے کوئی مانیٹرنگ نہیں کی گئی۔

مئی میں غیر سرکاری میڈیا ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق راولپنڈی اور اسلام آباد کو درپیش پانی کے موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے، راول ڈیم کے پانی کو ٹریٹ کرنے کے لیے تین نئے جدید ترین سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کے منصوبے کی منظوری دی گئی ہے جو کہ پینے کے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔اس منصوبے پر رواں سال جولائی میں کام شروع ہو جائے گا جبکہ منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 6.07 ارب روپے کے لگ بھگ ہوگا۔ یہ منصوبہ نو ماہ میں مکمل ہو گا۔ راول ڈیم کا کیچمنٹ ایریا تقریباً 106.25 مربع میٹر ہے جو مری ہلز اور بنی گالہ سے ہوتے ہوئے راول ڈیم تک پھیلا ہوا ہے۔وسیع کیچمنٹ ایریا کو مدنظر رکھتے ہوئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کو وسعت دینے اور بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی (واسا) راولپنڈی مشترکہ طور پر مکمل کریں گے۔ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن، پلاننگ کمیشن، اسلام آباد میں واقع سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹٰی نے بھی اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔

پرانے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کم پڑ گئے ہیں اس لیے تین نئے سیوریج واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب سے پانی کی پاکیزگی میں اضافہ ہوگا۔ اس پراجیکٹ کے نفاذ کے لیے اگلے مہینے میں ٹینڈر جاری کیے جائیں گے۔ نئے مالی سال 2023-24 کے دوران راول ڈیم سے راولپنڈی تک پرانی خستہ حال سیمنٹ کی واٹر سپلائی لائن کے اندر چھوٹے قطر کی اسٹیل پائپ لائن بھی بچھائی جائے گی تاکہ اسے قابل استعمال بنایا جا سکے۔ اس سے گیریژن شہر کو پانی کی فراہمی میں 10 سے 15 ملین گیلن کا اضافہ ہوگا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ موسم گرما میں آنے والے سیلاب کے بعد سے اب تک بچوں سمیت پچاس لاکھ سے زائد پاکستانی باشندوں کو آلودہ پانی پینا پڑ رہا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان نے عالمی فورمز پر اپنی عوام کو صاف پانی، بہتر صفائی اور حفظان صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے کئی وعدے کر رکھے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں