چینی معیشت کی لچک کی بدولت “پیک چائنہ” کا بیانیہ ناقابل قبول ہے

بیجنگ (سی این پی ) چین سے ہر ہفتے تقریباً 30 مال بردار گاڑیاں جرمنی کے روہر خطے میں واقع شہر ڈوئسبرگ پہنچتی ہیں جو چین-یورپ ریلوے ایکسپریس (سی آر ای) کا ایک اہم مرکز ہے۔
یہاں موجودہ سہولیات اور گودام اب گنجائش کی حد کو پہنچ گئے ہیں اس لئے رواں موسم گرما میں ایک نیا ٹرمینل کام شروع کردے گا تاکہ چین آنے اور جانے والے مال کا بہتر انتظام کیا جاسکے۔
کوویڈ 19 وبائی مرض کے دوران سی آر ای سروس سے منسلک ڈوئسبرگ اور دیگر یورپی شہروں میں چین سے مال بردار ریل ٹریفک میں اضافہ ہوا۔
بحیرہ احمر کے حالیہ بحران کے سبب اس سروس کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
سی آر ای بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس کا آغاز ایک دہائی قبل ہوا تھا جس کے بعد سے یہ ایسا عالمی عوامی مفاد اور تعاون کا پلیٹ فارم بن چکا ہے جسے وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے اور اس نے دنیا میں اقتصادی ترقی کی نئی راہیں کھولی ہیں۔
بی آر آئی کی مقبولیت کے باوجود کچھ مغربی ممالک میں ایک نیا بیانہ سامنے آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین کی مسابقتی قوت عروج پر پہنچنے کے بعد زوال کے قریب ہے۔
“پیک چائنہ” نظریہ سازوں کا دعویٰ ہے کہ چین کو بگڑتے بیرونی ماحول، بڑھتے ہوئے علاقائی سیاسی خطرات ،غیر ملکی سرمائے کے انخلاء اور عالمی سپلائی چینز میں تبدیلی کا سامنا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق چین کو 2023 میں حقیقی غیر ملکی سرمایہ کاری کی مد میں 11 کھرب یوآن (تقریباً 150 ارب امریکی ڈالر) ملے۔ یہ سرمایہ گزشتہ برس کی 8 فیصد کی کمی کے باوجود صرف 2021 اور 2022 کی سطح سے کم ہے۔
پوری دنیا کے تشویش ناک منظرنامے میں یہ صورتحال قابل تعریف ہے۔ اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی کی جنوری میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ جب دوسرے ممالک کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کے لیے چند یورپی “کنڈیٹ اکانومی” کو خارج کردیا گیا تو عالمی سطح پر براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 18 فیصد تک کمی ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں