ذرا جو تم ٹھہر جاتے ۔۔۔۔۔ شاہد اعوان

اس دوراہے پر افکار کا ساغر ٹوٹ کر کچھ اس طرح سے بکھرا ہے کہ اس کی کرچیاں چنتے ہوئے خیالات کے نئے جھمگٹے میں کھو سا گیا ہوں کہ اب تفکرات کے مندر میں الوصال الوصال کے بجائے الفراق الفراق کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔۔۔ سوچ رہا ہوں کہ ساقی مے خانہ کے متعلق میں بے نوا کیوں ہو گیا ہوں ، کس سے کہوں ، کیسے کہوں اور کیونکر کہوں۔۔۔ کہنا تو بہت کچھ چاہتا ہوں لفظوں کا جیسے قحط پڑ گیا ہے، زبان گنگ ہو گئی ہے میرے پاس بس ایک چیز بچی ہے اور وہ ہیں آنسوئوں کی جھڑی ”اَج اکھیاں لائیاں کیوں جھڑیاں” کی سی کیفیت ہے۔۔۔ کتنے روز بیت گئے صبر نہیں آ رہا عجیب کشمکش سے دوچار ہوں اس لئے کہ میخوار اپنے ساقی کے حضور جرأتِ اظہار نہیں کر پا رہا آج خاموش گفتگو اور بے زبانی میری زبان ہے دل میں حباب کی مانند چھالے ہیں اگر کوئی ایسا ترازو ہوتا جس میں لہجے، گفتگو اور قلم میں چھپے سوزوگداز کو تولا جا سکتا تو یہ شدتِ کرب یقینا پتھروں کے سینے میں فصلِ گریہ اُگا دیتی۔۔۔غم تو یہ ہے کہ لامحدود کرب کو لفظوں میں سمیٹا نہیں جا سکتا!!!
چند روز قبل میرا بہت ہی پیارا بھائی اور عزیزِ جاں دوست یوں اچانک دنیا سے کوچ کر گیا کہ ابھی تک دل کو یقین نہیں آ رہا۔۔۔ جی ہاں ملک الفت حسین ایک معمولی سے آپریشن کے دوران دنیا سے عدم کو سدھار گیا۔ سوشل میڈیا پر ایک نامعلوم شخص کی پوسٹ نظر سے گزری جس میں ان کے انتقال کی دردناک خبر تھی، دل دھک سے بیٹھ سا گیا میرے ساتھ میری اہلیہ بھی تھیں دل میں دعائیں مانگنے لگا کہ اللہ کرے یہ خبر بھی سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی دیگر خبروں کی طرح جھوٹ ہو۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں برادرمحترم ملک نجیب الرحمٰن ارشد کا فون آگیا وہ رندھی ہوئی آواز میں گویا ہوئے تو شک کی ساری کہانیاں سچ ہونے لگیں وہ رو رہے تھے اور میرے جذبات بھی میرے بس میں نہیں تھے، گھر والے پریشان ہو گئے اور جب انہیں حقیقت کا پتہ چلا تو وہ سب بھی سکتے میں آ گئے کہ وہ تو بالکل صحت مند تھے ان پر تو کسی بیماری کا شائبہ تک نہ تھا پھر یکدم یہ سانحہ کیونکر بپا ہو گیا۔۔۔ خبر کی تصدیق کے بعد اس پر یقین کے سوا کوئی اور چارا بھی تو نہ تھا سو اس دلخراش واقعہ کو رب کی رضا سمجھ کر سر تسلیم خم کر لیا۔ نماز جنازہ کے متعلق ان کے ہم منصب چیف آفیسر حسن ابدال ساجد خان نے وقت کنفرم کیا۔ اگلے روز ملک نجیب اور برادر آصف محمود کے ہمراہ تلہ گنگ کے لئے روانہ ہوئے تو ہم سب ایک دوسرے سے نظریں چرائے دل ہی دل میں رو رہے تھے، جب لمبی خاموشی نے طول پکڑا تو ملک آصف نے برادر الفت حسین کی یادوں کا تذکرہ چھیڑ دیا اور پھر سارا راستہ اپنے عزیز دوست کی اچھی باتوں اور دوستی کے قصے سنتے سناتے کٹ گیا ۔ تلہ گنگ پہنچ کر نماز ظہر ادا کرنے کے بعد ان کے آبائی گائوں چینجی کے لئے عازمِ سفر ہوئے۔
ملک الفت سے میرا تعلق اس وقت زیادہ گہرا ہوا جب وہ حسن ابدال میں بطور ٹی ایم او تعینات ہوئے اور پھر یہ تعلق ایک فیملی ممبر کی طرح مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا ۔ وہ مجھے بھائیوں سے بڑھ کر احترام اور عزت دیتا ہم ہر روز گھنٹوں گپ شپ کرتے جس پر کچھ لوگوں کو احتراز بھی ہوتا لیکن ہماری دوستی دنیاوی کی بجائے روحانی صورت اختیار کر چکی تھی اسی دوران ہم سالک آباد شریف کی عظیم روحانی شخصیت پیر ثانی سرکار کے ہاتھوں بیعت بھی ہوئے ۔ وہ حسن ابدال سے تبدیل ہو کر جہلم، ٹیکسلا، کلر کہار، پنڈی گھیب اور تادمِ مرگ جنڈ میں اپنے سرکاری فرائض سرانجام دے رہے تھے کہ اجل کا بلاوا آ گیا۔ انہوں نے جن افسران کے ساتھ کام کیا وہ ان کی سرکاری ذمہ داریوں سے بہت خوش تھے وہ اکثر کراچی میں سابق کمشنر روشن علی میمن، سابق کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) ثاقب ظفر اور سابق اے ڈی سی جی منور حسین لنگڑیال کے ساتھ رفاقت کے بہت سے قصے کہانیاں یاد کیا کرتے تھے ۔ جب ملک الفت کے انتقال کی خبر میں نے منور حسین لنگڑیال کو سنائی تو وہ مغموم ہو گئے۔ اسے اپنے ماموں زاد بھائی برگیڈیئر (ر) نور الحسن کے ساتھ گہرا انس تھا جب بھی کوئی مشکل پیش آتی وہ ان کے پاس پہنچ جاتا، البتہ برگیڈیئر عباس ، کرنل سرخرو اور ان کے صاحبزادے برگیڈیئر ٹیپو کا اکثر ذکرِ خیر ہوتا۔ اس کے بچوں میں بیٹی نایاب بڑی اور بیٹا علی چھوٹا ہے نایاب ماشااللہ بڑی ذہین بچی ہے جبکہ علی ماں باپ کا اکلوتا اور لاڈلہ ہونے کی وجہ سے تھوڑا لاپرواہ ہے الفت اس کے بارے اکثر میرے ساتھ صلاح مشورہ کرتا علی کے بارے بتاتے تھے کہ وہ فوج میں جانے کے بجائے بیوروکریسی کا بڑا افسر بننا چاہتا ہے۔ ہمارا تعلق بڑ اگہرا اور مضبوط تھا وہ ہر بات میں مجھ سے مشورہ کیا کرتا ہم نے کئی بار اکٹھے سفر بھی کیے ہم ویک اینڈ پر کھانا بھی ساتھ کھاتے ، الرجی ہماری مشترکہ بیماری تھی مارچ اپریل ہمارے لئے بڑے بھاری ثابت ہوتے تھے۔ چند ماہ قبل ہم چیف آف اعوان ملک صفدر علی اعوان کی اہلیہ کا جنازہ پڑھ کر واپس آرہے تھے اور وہی ہماری آخری ملاقات بھی تھی تو اس نے مثانے میں تکلیف کا ذکر کیا تھا اور ڈاکٹروں نے اسے آپریشن کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن ایک پیارے دوست اور بھائی کا یوں اچانک بچھڑ جانا ذہن و دل پر ہمیشہ کے لئے گہرے نقوش ثبت کر گیا۔ سوچتا ہوں کہ ہر دوسرے دن فون کرنے والا اس دیس جا پہنچا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی رستہ ہی نہیں۔ خواجہ غلام فرید کیا خوب فرماتے ہیں:
اُچیاں لمیاں لال کھجوراں تہ پتر جنہاں دے ساویں
جس دَم نال سانجھ ہے اساں کوں او دَم نظر نہ آوے
گلیاں سنجیاں اجاڑ دسن میں کو، ویڑا کھاون آوے
غلام فریدا اوتھے کیہ وسنا جتھے یار نظر نہ آوے !

اپنا تبصرہ بھیجیں