آمدنی کا جمود و اخراجات کا سونامی ……………….. قادر خان یوسف زئی

امن و امان کی بگڑتی صورت حال اور توانائی کے بحران نے معاشی ترقی کے راستے مسدود کئے، صرف یہی نہیں بلکہ مہنگائی کے عفریت کے ساتھ جرائم کے بڑھتے رجحان نے چہروں سے مسکراہٹ چھین لی، زندگی بے یقینی اور مایوسی کا شکار ہو کر موت کے دیو کے پنجوں میں جکڑی آخری سانسیں لیتی معلوم ہوتی ہے۔ ان حالات میں ملک بھر کا جائزہ لیں تو سیاسی عدم استحکام کا شکار ماحول، عدم برداشت کا افسوس ناک منظر بھی کررہا ہے۔کسی بھی مملکت کی ترقی کے لئے سب سے پہلا عنصر امن و امان کا پائدار ہونا ہے۔ غیر ملکی اداروں سے بھاری شرح سود پر لئے جانے والے قرضوں سے معاشی پہیہ گامزن ہونے میں دقت کا سامنا ہے۔ حکومت کی طرف سے صنعتی، زرعی اور دیگر شعبوں کی ترقی کے لئے قابل ذکر اقدامات اور کوئی بڑا دورس نتائج کا حامل منصوبہ بھی شروع نہیں کیا جاسکا، مہنگائی کے عفریت کو بھی قابو نہیں پایا جاسکا۔ گذشتہ دنوں سستی چینی فی کلو 65روپے فروخت کرنے کے مناظر دیکھ کر افسوس ہوا کہ محض صرف دو کلو چینی لینے کے لئے طویل طویل قطاریں لگی ہوئی تھی، تو دوسری جانب ذخیرہ اندوز و منافع خوروں کی وجہ سے عدم اعتماد کا یہ عالم تھا کہ مارکر سے ہاتھ کونشان زدہ کیا جارہا تھا۔
آج ہمارے حکمراں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کرنے اور صنعتی منصوبے شروع کرنے کی بار بار دعوت دے رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال نہیں ہورہا، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سرمایہ ہمیشہ امن کی جانب سفر کرتا اور جہاں امن نہ ہو، سیاسی استحکام ناپید ہو تو وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔بادی ئ النظر لگتا ہے کہ حکومت ملکی معیشت کو سنبھالنے کی اپنے تئیں کوششیں کرتی ہے، لیکن ملکی معیشت کا پہیہ درست سمت پر لانے کے لئے وزیراعظم کی جانب سے بار بار اپنی معاشی ٹیم میں تبدیلی کرنا، ثابت کرتاہے کہ مربوط لائحہ عمل کی کمی ہے، تجربہ کاری کے باوجود ٹھوس فیصلے کرنے میں اعتماد کی کمی حائل ہے۔تیزی سے غربت و جرائم کی رفتار میں اضافہ جبکہ تجارت کی سرگرمی ماند پڑتی جارہی ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کی حقیقی کوششیں بروئے کار لانے میں تامل کا حائل ہونا ہے۔ یہ امر قابل تحسین و غور طلب ہے کہ ریاست نے دہشت گردی کے بڑے پیمانے پر ہونے والی کاروائیوں کے سامنے خود کو نہیں جھکایا، بلکہ مزید پرعزم ہوکر اس نے انتہا پسندی کے خلاف قدم اٹھایا، ریاستی اداروں نے اس کے لئے قیمتی جانوں کی قربانیاں بھی دیں لیکن اپنے اٹل موقف کے لئے کسی حیل وحجت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ حکومت کو بھی اپنے فیصلوں پر کاربند و ڈٹ کر کھڑے رہنے کی ضرورت ہے۔ جب تک حکومت کی طرف سے سنجیدگی کا مظاہرہ،عملی طور پر سامنے نہیں آئے گا، رٹ آف دی اسٹیٹ بھی قائم نہیں ہوگی اور دوسری جانب مہنگائی و کمزور معیشت کی بحالی کی ہر کوشش ناکام ہوتی رہے گی۔
یہ امر حکومت کے حق میں جانا چاہے کہ اپنے سیاسی مخالفین کو آئین کے مطابق ہر قسم کی آزادی دیں، ان کے فیصلوں سے سیاسی انتقام کی بو نہ آئے، ہراساں کئے جانے کے تاثر کو رد کیا جاسکے، سیاست میں برداشت کے ماحول کو بڑھاوا دیا جائے، میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کے بجائے، تنقید کو برداشت کیا جائے، جمہوری روایات کی پاسداری میں میڈیا کی تنقید کو ذاتی حملے تصور نہ کیا جائے بلکہ مثبت تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے۔ مملکت میں میڈیا پر قدغن لگانے کی ایسی روش کی حوصلہ شکنی کی جائے جو بعض سیاسی جماعتوں کے انڈر گراؤنڈ میڈیا سیل مخالفین کے خلاف اختیار کرتے ہیں، انڈرگراؤنڈ سوشل میڈیا گروپ کی اشتعال انگیزیوں سے کوئی بھی جماعت معاشی ترقی و امن قائم رکھنے کے بلند بانگ دعوؤں سے عوام کو اندھیرے میں نہیں رکھ سکتی۔ آج ملکی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ لگانے کے لئے اسی وجہ سے تیار نہیں، کیونکہ بعض سیاسی جماعتوں کے سپلیرز میڈیا سیل نے ماحول کو اس قدر مکدر بنا دیا کہ وہ پاکستان میں دوبارہ رخ کرنے سے قبل ہزار مرتبہ سوچتے ہیں۔ بالخصوص حکومت اپنے رویوں اور پالیسیوں سے ایسا مثبت تاثر دینے میں بھی کامیاب نظر نہیں آتی کہ وہ سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ دینے کی یقین دہانی سے بڑھ کر عملی طور پر اقدامات پر قائل کرسکے۔حکومت ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی خواہاں ہے تو اسے سیاسی و معاشی صورت حال بہتر بنانے اور توانائی کے بحران کو ختم کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
معاشی پالیسیوں میں ربط کے فقدان کی وجہ سے عوام میں مایوسی کا پید ا ہونا فطری عمل ہے، حکومت کے مثبت و عوام دوست اقدامات گر ہوں تو تعریف بھی کرنی چاہے، لیکن حکومتی اقدامات صرف عوام کے سر پر ٹیکسوں و مہنگائی کے بوجھ کو مسلسل بڑھا رہا ہے، گیس، بجلی اور توانائی کے ہر شعبے میں ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کا بوجھ براہ راست عام عوام کی زندگی متاثر کررہا ہے۔ آمدنی کا جمود و اخراجات کا سونامی، عوام کی بے کلی کا اہم سبب ہے۔ آمدنی و اخراجات میں عدم توازن و بڑھتی بے روزگاری نے کمزور عوام کی کمر توڑ رکھی ہے۔ وزراتوں کے قلم دانوں کو گھوما پھیرا کر ناکامیوں پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ گذشتہ حکومتوں کو ناکامی کا ذمے دار قرار دینے کے بیانیہ کو عوام اب قبول کرنے کو تیار نہیں۔
گذشتہ حکومتیں جو بھی کرگئیں، ان پر ابھی تک کچھ ثابت نہیں ہوسکا، اس ضمن میں دائر مقدمات پر فیصلے تاخیر کا شکار ہیں تو اس کا حل بھی حکومت کو ہی نکالنا ہے، جوڈیشنل ریفارمز کے لئے عدلیہ کے ساتھ مل کر انصاف کی فوری فراہمی کے لئے قانون سازی بھی حکومت کو ہی کرنا ہے، اس کے لئے حزب اختلاف کو تنہا ذمے دار قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ عوام دیکھ رہی ہے کہ پارلیمان کو غیر فعال بناکر آرڈیننس کا سہارا لینا، خود پارلیمان نظام پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔کہا جاسکتا ہے کہ تنقید کرنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے، لیکن جواب بھی وہی ہے کہ ایسے اقدامات ہی کیوں کئے جاتے ہیں جو تنقید کی زد میں آئیں، انگلی رکھنے کی جگہ فراہم ہی نہ کی جائے تو مسئلہ، مسئلہ نہیں رہے گا، موجودہ حکومت کے پاس عوام کے پاس جانے کا بہت کم وقت رہ گیا ہے، اب انہیں سوچنا چاہے کہ کون سی پالیسی ان کے حق میں سود مند ہوسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں