پر تشدد احتجاج دنیا بھر میں رائج کیا مغربی دنیا میں بھی 20 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی جماعت پر یک جنبش قلم پابندی لگائی جاتی ہے—-ملک عبدالجبار

گزشتہ دنوں کالعدم قرار دی جانے والی جماعت2017 فیض آباد دھرنا دینے کے بعد ایک مذہبی جماعت کے طور پر سامنے آئی جس کے سربراہ خادم حسین رضوی تھے، جو گذشتہ برس انتقال کر گئے۔2017 میں ختم نبوت کے بِل کے معاملے پر کالعدم تنظیم نے اس وقت کے وزیر قانون کا استعفیٰ طلب کیا اور اسلام آباد کی جانب مارچ کر کے وفاقی دارالحکومت کو تین ہفتوں تک بند کیے رکھابعد میں مذاکرات کے بعد دھرنا ختم ہو گیا تھا۔2018 کے انتخابات کے وقت کالعدم تنظیم نے خود کو سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن میں رجسٹر ڈکرایا اور انتخابات میں حصہ لیا۔2018 اکتوبر میں توہین رسالت کے الزام میں سزا پانے والی ملعونہ آسیہ بی بی کی رہائی کے موقع پر پارٹی نے دوبارہ ملک گیر احتجاج کیا اور سرکاری وعوامی املاک کو نقصان پہنچایا لیکن حکومت نے اس وقت بھی مذاکرات سے معاملے کو ختم کیا۔لیکن آسیہ بی بی کے ملک چھوڑنے کے بعد سڑکوں پر دوبارہ پرتشدد احتجاج کرنے پر حکومت نے پارٹی کی مرکزی قیادت کو دہشت گردی کے الزامات میں حراست میں لے لیا۔گذشتہ برس فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر حکومت پاکستان نے احتجاج کیا لیکن کالعدم تنظیم نے حکومت سے فرانس سے ہر قسم کا سفارتی رابطہ ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک گیر احتجاج کیا۔جسکے بعد حکومت اور تحریک لبیک کے مابین معاہدہ طے پایا ،حکومت نے معاہدے کی رو سے جس مدت کا ذکر کیا تھا اس مدت تک فرانس کے سفیر کو ملک بدر نہیں کیا۔کالعدم تنظیم کی جانب سے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں 20اپریل کو دھرنے کا اعلان کیا کیا گیاجسکے جواب میں حکومتی احکامات پر پولیس نے کالعدم تنظیم کے سربراہ صاحبزادہ سعد حسین رضوی کو گرفتار کرلیا جس کے بعد کالعدم تنظیم کے کارکن خادم رضوی کے مزار پر جمع ہوگئے،ترجمان کالعدم تنظیم نے سربراہ تحریک لبیک کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی اوچھے ہتھکنڈے ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتے، لانگ مارچ ضرور ہوگا۔ کالعدم تنظیم کے سربراہ کی گرفتاری کے بعد مجلسِ شوری کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیاگیا ،اشرف آصف جلالی نے گرفتاری کی مذمت کی ہے جبکہ جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ۔لاہور شہر میں یتیم خانہ چوک ، ٹھوکر نیازبیگ، شاہدرہ، ای ایم ای چوک، چونگی امرسدھو، جوڑے پل، برکی، مصری شاہ، ہربنس پورہ، شالیمار چوک، باگڑیاں،نیازی چوک، آزادی چوک، آئوٹ فال روڈ،سگھاں پل اور دیگر علاقوں میں دھرنے دے کر ٹریفک کو بلاک کر دیا۔قصور ، رائے ونڈ ، دیپالپور روڈ اور شہر کو آنے والے تمام راستے بند ہو گئے ،سرگودھا ، لالہ موسی ، گجرات، کھاریاں،سرائے عالمگیر اور دیگر شہروں اور علاقوں میں احتجاج کے دوران سیکڑوں کارکن جمع ہوگئے ٹریفک بلاک کردی۔ خضدار میں تحریک لبیک پاکستان کے عہدیداران اور کارکنان نے جھالاوان بس اڈے کے قریب رکاوٹیں کھڑی کرکے کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو بند کیا جس کے باعث ٹریفک کا نظام معطل ہوگیا ، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس پھینکی اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔ تصادم کے نتیجے میں پولیس و مظاہرین کا جانی و مالی نقصان بھی ہوا۔
معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکلتے دکھائی دینے لگے تو حکومت نے تنظیم پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس پر عملدرآمد کر دیا۔قابل غور بات یہ ہے کہ پابندی کے فیصلے کے بعد اس جماعت کا مستقبل کیا ہوگا کیونکہ یہ صرف ایک مذہبی جماعت نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر بھی پاکستان میں رجسٹرڈ ہے۔واضح رہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک لبیک نے سندھ اسمبلی کی پی ایس 107 اور پی ایس 115 سے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اسے قومی اسمبلی اور باقی کسی صوبے میں کامیابی نہیں ملی تھی۔
تحریک پر عائد حکومتی پابندی کے حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تنظیم فوری طور پر سیاسی جماعت کے طور پر ختم نہیں ہو گی۔یہ معاملہ سپریم کورٹ بھیجا جائے گا اور پھر سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی کہ یہ جماعت ملکی سالمیت کے لیے خطرہ ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ اس پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے والے ارکان اسمبلی تب تک بحال رہیں گے جب تک سپریم کورٹ اس معاملے پر اپنا فیصلہ نہ سنا دے، آئین کے آرٹیکل 17 کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کو اپنی آمدن کے ذرائع قانون کے مطابق بتانے ہوں گے، الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 204 کے مطابق اپنی فنڈنگ کا ذریعہ بتانا لازمی ہے۔الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 212 کے مطابق اگر وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن یا کسی اور ذرائع سے جماعت کے معاملے پر معلومات ملتی ہیں جس میں ثابت ہو کہ متعلقہ جماعت دہشت گردی میں ملوث ہے تو وزارت داخلہ پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری کرے گی اور نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے 15 دن کے اندر معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجا جائے گا۔
واضح رہے پاکستان کی عدالتِ عظمی نے کالعدم تنظیم کی جانب سے سنہ 2017 میں اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے کے معاملے پر ازخود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف وزری کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔عدالت نے آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو کسی دوسرے کے خلاف فتوی دیتا ہے جس سے کسی کو نقصان پہنچے یا اس کی راہ میں رکاوٹ آئے، اس کے خلاف انسداد دہشت گردی یا سائبر کرائم کے قوانین کے تحت مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن یہ حق اس وقت تک تسلیم کیا جانا چاہیے جب تک اس سے دوسروں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔
دھرنوں کی سیاست پاکستان میں کوئی انہونی بات نہیں ہے،مختلف سیاسی جماعتیں اپنے مطالبات کے حصول کے لئے احتجاجی راستہ اختیار کرتی رہی ہیں۔14اگست 2014 کو پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آ باد کو یرغمال بنا کر ڈی چوک پر دھرنوں کی سیاست کا آغاز کیا ، بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والا دھرنا موجودہ وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے دیا تھا جو 126 دنوں تک جاری رہا۔جس میں ان کی شریک علامہ طاہر القادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک بھی تھی۔2018 میں پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو روایت کو اپناتے ہوئے اپوزیشن کی جماعتوں نے دھاندلی کا واویلا شروع کر دیا جس طرح 2014 میں پاکستان تحریک انصاف کررہی تھی ۔پی ٹی آئی کی روایت کو اپناتے ہوئے جے یو آئی (ف)کے سربراہ فضل الرحمان نے23 دن کا دھرنا دیا۔
لیکن جہانگیر ترین کے سنسنی خیز انکشاف کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی قلعی مکمل طور پر کھل گئی ہے۔انہوں نے 2013 میں اپنی پارٹی کی بری انتخابی شکست کو خراب منصوبہ بندی، کمزور امیدوار اور خاندانی سیاستدانوں کو ساتھ نہ ملانے سے جوڑ دیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے دھاندلی کا شور مچایا لیکن وہ چند نشستوں پر ہوئی جیسا کہ ہر الیکشن میں عموما ہوتا ہے۔پی ٹی آئی کے ذمہ دار عہدیدار کے اس انکشاف کے بعد یہ بات اب طے ہوگئی ہے کہ 2013 میں ایک قانونی، جائز اور منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کے مینڈیٹ کو جان بوجھ کر اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت متنازع بنایا گیا جس سے نہ صرف پاکستان میں جمہوری اداروں کو کمزور کیا گیا بلکہ معاشی ترقی اور بین الاقوامی تعلقات کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا۔ یہ ایک طرح سے سیاسی دہشت گردی کا واقعہ تھا جس سے ایک قانونی طور پر قائم حکومت کا غیرآئینی طریقے سے تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی۔ ہماری پارلیمانی تاریخ کی بدترین روایت قائم کرتے ہوئے پارلیمان پر پی ٹی آئی اور طاہرالقادری کے کارکن حملہ آور ہوئے۔ پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن کی نشریات اندرون و بیرون ملک روک دی گئیں۔ یہی سیاسی دہشت گرد پولیس پر بھی حملہ آور ہوئے اور کئی پولیس افسران کو زخمی کیا۔اس دھرنے کی وجہ سے پاکستان کو اربوں روپوں کا معاشی نقصان پہنچا، پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی آئی اور ملکی سرمایہ کاروں نے بھی اپنے ہاتھ روک لیے اور پورا ملک ایک معاشی جمود کا شکار ہو گیا۔ اس سیاسی دہشت کو اس وقت ایک نئی سطح پر لے جایا گیا جب پی ٹی آئی کے رہنما نے عوام کو سول نافرمانی پر اکساتے ہوئے انہیں بجلی اور گیس کے بل نہ ادا کرنے کا کہا۔ بات یہیں پر ہی نہیں رکی بلکہ یہ کوشش بھی کی گئی کہ عوام ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر دیں۔منتخب حکومت سے دشمنی میں ملک کی معیشت کو اور کمزور کرنے کے لیے بیرون ملک تارکین وطن کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے انہیں غیرقانونی ہنڈی کا راستہ اختیار کرنے کو کہا گیا۔ FATF کی بعد کی سختیاں غالبا ہمارے سیاسی رہنمائوں کی انہی نادانیوں کی وجہ سے شروع ہوئیں۔سی پیک منصوبے پر عمل درآمد کو ایک سال پیچھے دھکیل دیا گیا جب چینی صدر 2014 میں دھرنے کی وجہ سے پاکستان نہ آ سکے۔ انہیں اپنا دورہ اور سی پیک معاہدے پر دستخط 2015 تک موخر کرنا پڑے۔ماضی میں اگر جھانکا جائے تو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت بھی ملک میں شدید احتجاج ہوا،سرکاری اور نجی املاک کو نذر آتش کیا گیا ،دنیا بھر میں احتجاج کئے جاتے ہیں مہذب معاشروں میں بھی پرتشدد احتجاج کئے جاتے ہیں مگر کیا وہ بھی دہشت گرد قرار دیے جاتے ہیں ؟گزشتہ برس امریکہ میں پولیس کی تحویل میں ہلاک ہونے والے سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی موت کے بعد امریکہ بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو ا، امریکہ کے مختلف شہروں میں ایسے پر تشدد واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی مثال کئی دہائیوں میں نہیں ملتی۔ نیو یارک کے معروف ڈیمپارٹمنٹ سٹور میسیز کو توڑ کر لوگ اس میں گھس گئے اور ایک نائیکی کے سٹور کو لوٹ بھی لیا گیا جبکہ دوسری کئی دکانوں اور بینکوں کے شیشے توڑ کر لوٹ مار کی گئی ،صدر ٹرمپ کے پرتشدد حامیوں نے تمام رکاوٹیں عبور کر کے امریکی ریاست کے سیاسی مرکز کیپیٹل ہل کے اندر داخل ہوئے۔ اس وقت کیپیٹل ہل میں نو منتخب صدر جو بائیڈن کی فتح کی تصدیق کے لیے جو کارروائی جاری تھی اس کی کوریج کے لیے وہاں نیوز فوٹو گرافر بھی موجود تھے جنھوں نے مظاہرین کی عمارت کے اندار ہنگامہ آرائی کے مناظر کو دنیا کے سامنے فوری طور پر پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔آخری بار واشنگٹن میں اس عمارت پر برطانوی فوجیوں نے 1814 میں دھاوا بولا تھا۔مگر اب 2021 میں صدر ٹرمپ کے حامی ہاتھ میں کنفڈریشن کا جھنڈا اٹھائے سینیٹ کے چیمبر کے قریب راہداریوں سے گزرے جنہیں خاص مزاحمت کا سامنا نہیں ہوا تھا۔
لندن میں ہزاروں افرادکووڈ 19کے دوران حکومتی پابندیوں کے خلاف احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلے تومظاہرین نے 5جی کے ٹاورز کو آگ لگا دی توڑپھوڑ کی ، سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا ، چلی میں پولیس کی فائرنگ سے ایک اسٹریٹ آرٹسٹ کی ہلاکت کے بعد مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔دارالحکومت سینٹیاگو میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور مشتعل مظاہرین نے املاک کو بھی نقصان پہنچایااور عمارات کو آگ لگادی ۔
روم میں کوویڈ 19 کی بندشوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ تقریبا 200 افراد نے وزیر اعظم ماریو ڈریگی کے دفتر تک پہنچنے کی کوشش کی ، لیکن پولیس نے انہیں روک لیا۔کچھ مظاہرین نے پولیس پر پتھرئاو کیا اور بوتلیں پھینک دیں اور آتشبازی بھی کی جس کی وجہ سے سڑک دھویں سے بھر گئی۔
2019میں مشرق وسطی میں عراق اور لبنان، ایشیا میں ہانگ کانگ اور افریقہ میں الجیریا احتجاج کی لپیٹ رہے جبکہ لاطینی امریکہ کا خطہ بھی مظاہروں کی زد رہا۔ پرتشدد مظاہروں میں درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو ئے تھے ۔ بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میںلاک ڈائون اور سخت پابندیوں کے دوران بھی کشمیری عوام دہلی میں قوم پرست نریندر مودی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج نظر آئے ۔پانچ اگست 2019کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد خطے میں ہونے والے مظاہروں میں کئی افرادجاں بحق اور درجنوں زخمی ہو ئے ۔پاکستان سمیت دنیا بھر اور مہذب معاشروں میں ایسے پرتشدد احتجاج اور مظاہروں کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مہذب معاشرے بھی اپنے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہیں ؟کیا مغربی دنیا میں بھی 20 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی جماعت پر یک جنبش قلم پابندی لگائی جاتی ہے ، پارلیمنٹ پر حملہ ، سرکاری ٹی وی پر قبضہ،سول نافرمانی کی تحریک چلانے، کراچی کا امن تباہ کرنے کے ذمہ داران ،،بوری بند لاشیں،ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں ،بھتہ مافیا ،سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والوں ، اداروں پر لفظی گولہ باری ، فوج سمیت دیگر اداروں کے بارے تضحیک آمیز جملے کہنے والوں اور عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے والوں پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی انہیں کس نے اور کیوں استشنی دیا ۔مذہب کے نام پر سیاست کی ہمیشہ نفی کی جاتی رہی مگر تاریخ گواہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کو مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے اگر یہ روش نہ اپنائی جاتی تو آج حالات اس نہج پر نہ پہنچتے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں