غزہ پر اسرائیلی حملوں کے پس پردہ حقائق ———–۔ایم ایم علی

غزہ فلسطین کا مغربی ساحلی کنارہ ہے جو تین اطراف سے اسرائیل کے نرغے میں ہے ۔ چوتھی طرف جنوب میں اس کا کچھ علاقہ مصر کی سرحد سے ملتا ہے جہاں سے کچھ سال قبل تک غزہ کے محصور مسلمانوں کو امداد ملتی تھی مگر مصر میں بھی ایک جابر وظالم ڈکٹیٹر حکمران کے آنے کے بعد غزہ کے محصورین کا بیرونی دنیا سے رابطے کا یہ آخری راستہ بھی بند ہو گیا اور اب غزہ کے مسلمان مکمل طور پر محصور ہوکراسرائیل کے رحم و کرم پر ہیں ۔ اب تک اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں غزہ میں لاکھوں افراد شہید ہوچکے ہیں ۔جن میں بڑی تعداد خواتین اور چھوٹے بچوں کی ہے اور تقریبا ہزاروں زخمی حالت میں ہسپتالوں میں پڑے دواؤں کا انتظار کر رہے ہیں مگر چاروں طرف سے اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے ادویات کی فراہمی بھی معطل ہو کررہ گئی ہے ۔فلسطین میں اسرائیلی بربریت کی ویڈیوز دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی فورسز کے حملوں کے باعث مسجد اقصیٰ میں آگ لگی ہوئی ہے جبکہ سیکڑوں یہودی بیت المقدس پر قبضے کے 54سال مکمل ہونے کا جشن منارہے ہیں۔
آج کے اس دور میں انسان اور بالخصوص امت مُسلمہ کا خون کتنا سستا ہے ۔دنیا میں ہر جگہ مسلمانوں پر کفار کے ظلم وستم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے ۔رمضان کے مقدس مہینے میں جب مسلمان روزے رکھ رہے ہوتے ہیں اور خدا کے حضور عبادات میں مشغول ہوتے ہیںتو دوسری طرف اسرائیل کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر غزہ کے نہتے اور مظلوم لوگوں پر ظلم اور بربریت کا بازار گرم کر دیتا ہے ۔ بادی النظر میں اسرائیل نے مسجدالاقصی اور غزہ پر زیادہ تر حملے رمضان المبارک میں ہی کئے ہیں۔جب سے اسرائیل کا ناپاک وجود قیام میں آیا ہے تب سے لے کر آج تک اسرائیل نے مظلوم اور بے بس فلسطینیوں پرعرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے ۔بظاہر تو اسرائیل دنیا کو یہ کہتا ہے کہ یہ کاروائیاں حماس کے خلاف ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے حقیقت میں اسرائیلی افواج نہتے اور عام شہریوں کو آگ و خون میں نہلا رہی ہیں۔جب حماس نے 2006 میں باقاعدہ طور پر الیکشن میں حصہ لیا تب تک امریکہ اور یورپی طاقتوں کو حماس کے انتخاب میں حصہ لینے پر کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ ان کو حماس کی کامیابی کا یقین نہیں تھا ۔لیکن انکے یقین کے برعکس جب انتخابات میں حماس نے واضح کامیابی حاصل کی تو یہ بات عالمی طاقتوں کی برداشت سے باہر تھی’اسرائیلی حکومت حماس کو اپنے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔
اب بھی اسرائیل نے حماس کے خلاف کارروائی کی آڑ میں مظلوم بچوں اور عورتوں پر اپنی وحشت کا بازار گرم کر رکھاہے ۔اسرائیل کی ظلم و زیادتی اور بربریت پر عرب لیگ اور دوسرے عالمی ممالک کی بے حسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔صرف 2یا3اسلامی ممالک کی طرف سے زبانی جمع خرچ پر مبنی بیان جاری کر کے اپنی ذمہ داری ادا کر دی جاتی ہے۔عالمی میڈیا اور ہمارا ملکی میڈیا اس اہم معاملے پر خاموشی کی تصویر بنے دیکھائی دیتے ہیں ‘اور مظلوم و معصوم فلسطینیوں کی شہادت پر آنکھیں بند کر کے بیٹھ ہے ۔ صرف عالمی میڈیا اور عالمی رہنما ہی نہیں بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پوری امت مسلمہ ہی مجرمانہ خاموشی سادھے بیٹھی ہے ۔
اسرائیل کے فلسطین اور مسجد الاقصی پر حملوں کے پس پردہ حقائق کیا ہیں ‘یہ مشہور مصنف رابرٹ فسک نے اپنی ایک تحریر میں بیان کیے ہیں ۔اگرچہ اسرئیل دنیا سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے ‘مشرق وسطیٰ اور بالخصوص فلسطین اور اسرائیل کی تاریخ اور سیاست کے ماہرین نے اسرائیل کے اس خوفناک منصوبے سے پردہ اٹھایا ہے ‘جس کے مطابق یہ یہودی ملک فلسطین کو چاروں طرف سے گھیر کر باقی عرب ممالک اور دنیا سے اس کا رابطہ ہمیشہ کیلئے کاٹنے کی تیاری کر چکا ہے اور اگر اسرائیل اپنے اس مذموم مقاصد میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس نتیجے میں ایک خود مختار فلسطینی ریاست کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا ۔ غزہ فلسطین کا ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اور اس چھوٹے سے علاقے میں تقریبا 15 لاکھ فلسطینی آباد ہیں’یہ فلسطینی اس سے پہلے اس جگہ آباد تھے جہاں پر اب اسرائیل واقع ہے۔1948 میں فلسطینی عرب (حج)نامی جگہ پر آباد تھے جہاں پر اسرائیلی افوج نے قبضہ کر کے ان کو غزہ کی طرف دھکیل دیا جہاں اب یہ پناہ گزینوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔
اسرائیل اب فیصلہ کر چکا ہے کہ فلسطین کی مشرقی سرحد پر قبضہ کر لیا جائے ۔یہ علاقے دریائے اردن کے کنارے پر واقع ہیں ۔ ان علاقوں پر قبضے کے بعد فلسطین لبنان اور شام سے کٹ جائے گا اور یہ چاروں طرف سے اسرئیلی قبضے میں آجائے گا۔ پہلے بھی اسرائیل ) ISIS)کی اردن کی طرف سے پیش قدمی کو روکنے کے بہانے سے اپنی افواج مغربی کنارے کی طرف بڑھانے کا منصوبہ بنا چکا تھا ۔جبکہ اس کا اصل مقصد فلسطین پر قبضہ کرنا ہے ۔ اب تو اسرائیل نے بیت المقدس کو اسرائیل کادارلحکومت بنانے کا اعلان بھی کر چکا ہے اور کچھ مغربی و عرب ممالک نے اسرائیل کی حمائت بھی کی ہے مگر مسلم ممالک کی اکثریت بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
اب جب ایک طرف تو اسرائیل فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا ناپاک منصوبہ تیار کر چکا ہے ‘تو دوسری طرف اسرائیل کی اس بد ترین بربریت اور گھناؤنی سازش پر عالمی طاقتیں چُپ سادھے بیٹھی ہیں ۔ اس کے علاوہ اسرائیل بیت المقدس پر مکمل قابض ہو کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیرکرنے کا ارادہ کرچکا ہے ۔اور وہ اس کے لئے ہر حد عبور کرنے کو تیار ہے ۔ اب سوال یہاں یہ کہ کیا اقوام متحدہ کے پاس طاقت ہے کہ وہ اسرائیل کو اس عمل سے باز رکھ سے اور مسلمانوں کہ قبلہ اول اور معصوم فلسطینی شہریوں پر ہونے والے حملے رکوا سکے؟نہیں’ کیونکہ امریکہ کبھی بھی ایسی قرارداد کی حمائت نہیںکرے گا جو اسرائیل کے خلاف ہو۔امریکہ اسرائیل کی حمائت میں ویٹو پاور استعمال کر ے گا جیسے چین اور روس نے شام کے خلاف پیش کی گئی قراردادوں پر استعمال کی۔ اقوام متحدہ کا نظام عالمی امن کیلئے ہمیشہ سے ہی انتہائی مایوس کن رہا ہے ۔کیونکہ ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کی ہٹ دھرمی اور ضد مسائل کو جوں کا توں رکھتی ہے۔اسرائیل کا اگلا متوقع نشانہ لبنان اور اردن ہو سکتے ہیں کیونکہ ان دونوں ممالک کی سرحدیں اسرائیل کے ساتھ ملتی ہیں اور عسکریت پسندوں کو بھی اِن ممالک کی حمائت حاصل ہے ۔اس ساری صورت حال کے بعد بھی اگر ہمارے مسلمان حکمر انوں نے اسرائیل کی جارحیت کے آگے بند باندھنے کی کوشش نہ کی تو اس کا خمیازہ پوری امت مسلمہ کو بھگتناپڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں