امریکی وزیر خارجہ کے دورہ بھارت میں درپردہ مقاصد !! …………… قادر خان یوسف زئی

امریکی وزیر خارجہ دورہ بھارت پرآئے، خطے میں تبدیل ہوتی نئی تذیرواتی صورت حال کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن باٗیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار بھارتی ہم منصب سبرامنیئم جے شنکر سے بات چیت اور وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کی بڑھتی لہر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر دونوں ممالک کے درمیان کسی خاص پیش رفت کی امید کم رکھی جارہی ہے، کیونکہ اس سے قبل بھارت انسانی حقوق کی خلاف وزری پر امریکی رپورٹ کو مسترد کرچکا ہے اور اس نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف ریاستی جبر اور آر ایس ایس کے کردار پر متنازع عمل کو ہمیشہ کی طرح مسترد کرنے کی روش اپنا رکھی ہے۔ اس لئے گمان کیا جارہا ہے کہ افغانستان میں امریکی شکست کے بعد بھارت کو نیا کردار ادا کرنے کے لئے ماضی کی طرح کوشش کی جائے گی۔ درپردہ امریکی مقصد عیاں ہے کہ وہ چین اور افغانستان میں اپنے اثر رسوخ کو بڑھانے کی منصوبہ بندی میں چین کے خلاف سابق صدور کی روش کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ چین کے خلاف خطے میں صرف بھارت ایک ایسا ملک ہے جو مفادات کی لالچ میں چین کے خلاف استعمال ہونے کے لئے امریکی مراعات حاصل کرنے کا خواہاں رہا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ نے چین کے ہانگ کانگ میں واقع رابطہ دفتر کے ڈائریکٹر اور سات نائب ڈائریکٹروں کے خلاف نئی پابندیوں عائد کی، جس کے ردعمل میں چین نے بھی میں متعدد امریکی شہریوں کے خلاف پابندیاں عائدکی۔
امریکی دوہری پالیسی بھی کسی سے مخفی نہیں، امریکہ اپنے مفادات کے لئے کسی بھی سطح پر جا کر کسی بھی ملک کو استعمال کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ چین کے ساتھ بڑھتے تنازعات میں کوووڈ 19کے پھیلاؤ کی تحقیقات کے حوالے سے امریکہ۔چین کے درمیان کشیدگی کا فائدہ بھارت کو پہنچے گا۔بھارت اور امریکہ چین کی ابھرتی طاقت سے پریشان ہیں، اس سے قبل وزیر دفاع آسٹن لائیڈ نے اپنے دورہ بھارت میں اظہار کرچکے تھے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان چین مخالف تعلقات بائیڈن دور میں بھی بڑھتے رہیں گے۔امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ بھارت میں کواڈ گروپ میں شامل امریکہ، بھارت،آسٹریلیا اور جاپان کے گروپ کو 2017 میں چین مخالف پالیسی کے تناظر میں بحال کیا گیا۔ بادی ئ النظر بھارتی سرکار کا بائیڈن مخالفت میں سابق صدر ٹرمپ کی حمایت کے باوجود امریکہ و چین کے درمیان بدترین تعلقات میں بھارت کے کردار کو اہمیت کا حامل تصور کیاجارہا ہے۔گو کہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ، بھارت نے بالخصوص مخالف آرا کو دبانے اور مسلمانوں کے خلاف شہریت کا امتیازی قانون بنانے جیسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں؛ جبکہ بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ شہریت کا قانون امتیازی نہیں ہے اور یہ کہ اس کے خلاف لگائے گئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات درست نہیں ہیں۔ خیال رہے کہ بھارت کے خلاف امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والے ایک معروف ادارے ‘فریڈم ہاؤس’ پورٹجاری کی تھی کہ جس میں نریندر مودی کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی مبینہ بدترین صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی آزادی اور جمہوریت کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اسے ”جزوی طور پر آزاد” ملک کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔لیکن دیکھا جاتا رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف مظالم پر کانگریس میں آواز اٹھنے اور مذمت کے باوجود مودی سرکار کی انتہا پسندی کو نظر انداز کیا گیا، خطے کی دو ایٹمی ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو کم کرنے کے بجائے اپنا اثر رسوخ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کیا گیا اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی رپورٹس کو بھی مخصوص مفادات کے لئے پس پشت رکھا گیا۔
بھارت،اپنے منفی پروپیگنڈے کے تحت افغانستان کی صورت حال پر عالمی برداری کو گمراہ کرنے کی روش کو اختیار کئے ہوا ہے، مقبوضہ کشمیر میں اپنی ریاستی دہشت گردی کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغان طالبان ایسے عناصرکی حمایت کریں گے جو مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کے خلاف برسروپیکار ہیں۔ یہ بھارتی پروپیگنڈا دراصل مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے مزاحمت کرنے والوں کی تحریک واداریت کے خلاف مذموم سازش کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح انڈین خفیہ ایجنسی اور افغان این ڈی ایس باہمی اشتراک سے پاکستان کے خلاف ہائی برڈ وار کے ذریعے منظم سازشیں کرکے پاکستان کی خطے میں امن کوششوں کو متاثر کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، ان حالات میں امریکی وزیر خارجہ کو بھارت کے کردار کو زمینی حقائق کے مطابق دیکھنے اور جنوبی ایشیائی پالیسی کومرتب دینے کی ضرورت دینا ناگزیز ہوگا۔ خیال رہے کہ بلنکن کے دورے سے قبل جب امریکی محکمہ خارجہ میں جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے معاون سیکریٹری ڈین تھامسن سے نامہ نگاروں نے یہ سوال کیا تھا کہ آیا وزیر اعظم مودی کی ہندو قوم پرست پارٹی بی جے پی کے نافذ کردہ شہریت ترمیمی قانون، جسے ناقدین مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے تعبیر کیا جاتا ہے، کا معاملہ اٹھایا جائے گا؟ اس کے جواب میں تھامسن نے کہا تھا،”اسے اٹھایا جائے گا۔” تاہم بادی ئ النظر اس میں سنجیدگی کا عنصر کم نظر آرہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کو اس امر کا بھی ادارک ہوگا کہ افغانستان کی تیزی تبدیل ہوتی صورت حال میں پاکستان خطے میں امن کے لئے کلیدی کردار ادا کررہا ہے، تاہم کابل انتظامیہ کی جانب سے عدم تعاون و الزام تراشیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے، امریکہ کو اپنی حاشیہ بردار کابل انتظامیہ کو لگام دینے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ وہ کابل انتظامیہ کو شر انگیز بیانات سے روکے۔ پاکستان نے گذشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر ذمہ دار انہ کردار ادا کیا۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع چترال سے متصل افغان صوبے کنڑ کے سے پاکستان میں داخل ہونے والے 46 افغان فوجی اور افسران کو افغان حکام کے حوالیکیا۔پاکستان امن و سلامتی اور پائدار سیاسی استحکام کے لئے مثبت کردار ادا کررہا ہے، امریکہ کو بھارتی تعلقات کے نئے زوایئے میں اس حقیقت کو دیکھنا ہوگا کہ امریکہ کی بحفاظت واپسی و گذشتہ چار دہائیوں کے جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بن کر امریکی مفادات کا دفاع کیا، انہیں جنوبی ایشیائی دوروں، بالخصوص بھارت کے دورے کے ساتھ پاکستان کا بھی رخ کرنا چاہے، پاکستان امریکی حکام کی آمد کا صرف ڈو مور کے مطالبات سے ہٹ کر دو طرفہ معاملات میں تعلقات کے درمیان موثر حکمت عملی اور اعتماد کی فضا کو قائم رکھنے کے لئے وفود کے تبادلے اور اعلیٰ سطح پر ملاقاتوں سے کئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجاتا ہے، جبکہ نظر انداز کرنے سے بد گمانیاں جنم لیتی ہیں، یہ ضرور ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی فضا سازگار و ماضی میں بھی آئیڈیل نہیں رہی ہے، لیکن عالمی سطح پر کوویڈ 19نے دنیا کا نقشہ بدل دیا ہے۔ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کی از سرنو تشکیل کا خواہش مند بھی ہے اور امن کے لئے ایک قدم کے جواب میں دو قدم بڑھانے کا عندیہ دے چکا ہے، امریکہ اپنی جنوبی ایشیائی پالیسی میں برابری کی سطح پر پاکستان کی اہمیت و قربانیوں کو نظر انداز کرنے سے گریز کرے تو یہ خطے میں امن کیلئے بہتر ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں