بھٹو برائے نام مسلمان______حفصہ اکبرساقی

1978 سپریم کورٹ اپیل نمبر گیاراں کا ملزم عدالت میں پیش ہوتا ہے جو بنفس نفیس اپنے پر عائد الزامات کی تردید کے لیے مدلل خطاب کرتا ہے ۔ ٹرائل کورٹ اسے اجازت نہیں دیتی لیکن سپریم کورٹ اپنی ساکھ بچانے کےلے اجازت دے دیتی ہے۔ ہائی کورٹ کا ایک جج اپنے فیصلے میں لکھتا ہے “بھٹو صرف برائے نام مسلمان ہے اور ایسی زندگی نہیں گزار رہا جو ایک مسلمان حکمران کے شایان ہے”۔ اب بھٹو نے اپنا تین دن طویل بارہ گھنٹوں پر مشتمل خطاب شروع کیا۔
گویا ہوئے “مجھے کہا جا رہا ہے کہ میں ایک اچھا مسلمان نہیں ہوں ؟؟ حالانکہ میں نے اسلام کی و ہ خدمت کی ہے جو مجھ سے پہلے پاکستان کے کسی حکمران نے نہیں کی ۔ میں وہ مہرہ تھا جس نے ایک صدی سےجاری فتنہ قادیانیت کے آگے بند باندھا۔۔۔ہاں مپں نے تہتر کا آئین بنوایا لفظ ‘مسلمان’ کی تشریح کروائی اور قیامت کے دن تک انہیں اسلام سے خارج قرار دلایا”۔
تاریخ شاہد ہے کہ بھٹو نے مسلسل جدوجہد کی علماء سے ملاقات کیں ان کا اعتماد بحال کیا اور اسلام اور پاکستان کے لیے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بھٹو نے islamic summit conference لاہور میں منعقد کروایا اور شاہ فیصل کی سفارش پر اس کے چئیرمین بنائے گئے۔ پورے ملک میں سیرت کانفرنس کا اجراء سب سے پہلے بھٹو صاحب نے کروایا۔ Red cross جو عیسائیوں کے نشان سے مشابہ تھی کو Red cresent یعنی ہلال احمر رکھوایا۔ پہلی حج پالیسی بنائی۔ جمعے کے دن کی چھٹی قراردلائی۔ پورے ملک میں prohibition متعارف کروائی۔
اس ملک خداداد کے عسکری دفاع کو نا قابل تسخیر بنانے کے لیے ایٹم بم بنانے کا منصوبہ شروع کیا۔
غرض آئینی، عسکری، اسلامی، معاشرتی، معاشی اوربین الاقوامی فلاح وبہبود کے ہر شعبے میں اپنے جھنڈے گاڑے۔
بھٹو عوام دوست حکمران تھا آئین کا بانی ، اسلام کا سپاہی اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانباز جیالا تھا۔
راقم الحروف کاماننا ہے کہ قدرت اپنے عظیم کاموں کے لیے اپنا شاہکار خود چنتی ہے اور اسلام کی ان بے پناہ خدمات کے لیے قدرت نے اپنا شاہکار صرف اور صرف بھٹو کو چنا۔۔۔۔۔۔ بڑے بڑے علماء شاید یہ کارنامہ انجام نہ دے پاتے جو اس عام سے برائے نام لبرل مسلمان نے انجام دئیے ۔
سو بھٹو نے اپنے آخری خطاب کے اختتام میں کہا “میں نے جو خدمات اسلام کے لیے انجام دی اس کے بعد میں دنیا کی کسی عدالت کو اس بات کا مختار نہیں سمجھتا کہ وہ اس بات کا فیصلہ کر سکے کہ میں کیسا مسلمان ہوں؟؟؟”
اور آخر کار 4 اپریل 1979 کو اس وفا کے بے بہر و کیف پیکر کو شہادت کے رتبے سے سرفراز کیا گیا۔
جس دھج سے گیا کوئی مقتل میں
وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے
اس جان کی تو کوئی بات نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں