کرونا اور کالے رنگ دا پراندا_____ملک اے لطیف کھوکھر ایڈووکیٹ

اکثر دیکھا گیا ہے کہ گھروں، علاقے یا پھر ممالک میں اگر  کبھی کوئی بھاری ناگہانی  مصیبت آن پڑے، جنگ چھڑ جائے، لمبی طوفانی بارشیں، زلزلے یا کوئی اور ایسی بڑی بیماری یا وباء جس سے  پوری قوم مجموعی طور پر خوف زدہ ہو جائے،  تو انفرادی اور اجتماعی سطح پر زندگی کے ڈھنگ ہی تبدیل ہو جاتے ہیں،  لوگ جگہ جگہ اللہ اللہ کرتے نظر آتے ہیں، مساجد، گرجے، مندر، گوردوارے غرض جسکو  جہاں جہاں اللہ قریب نظر آتا ہے، اسی  میں پناہ مانگتے، اسی کے حضور سر بسجود ہو کر ان آفاتوں، بلاوں کو ٹالنے کی دعائیں مانگتے اور  گڑ گڑاتے  نظر آتے ہیں ۔ خاص طور پر تو جنگ کے دنوں میں قومی ریڈیو، ٹی وی چینلز پر قومی ترانے چلتے رہتے، تمام عیاشیاں، اللے تللے چھوڑ چھاڑ کر لوگ اپنی زندگی اور ملکی  سلامتی کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں ،  لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے جب پوری قوم کسی اجتماعی خوف میں مبتلا ہو جائے اور حکومتی سطح پر اس ماحول کو پورے ملک کا درد محسوس اور طاری کر لیا جائے لیکن آج  جو کرونا وائرس جس نے صرف ایک دو ماہ میں پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑھ کر ڈیڑھ لاکھ کے قریب انسانوں کو نگل لیا ہے، لاکھوں  اس سے   براہ راست متاثر اور لاکھوں کروڑوں  خفیہ طور پر اسے اٹھائے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔ کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں کہ کل کیا ہو گا۔ لیکن یہاں ہم پھر بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرو پالیسی پر عمل پیرا ہیں  کہ “وہ جو مرا ہے،،،،وہ میں تو نہیں “۔ یہاں لوگ گھروں سے نکل کر کام کاج بھی کر رہے ہیں، کچھ نے اسے تفریحی چھٹیوں کی طرح لیا ہے، لیکن گو یہ ہمارے ملک میں ابھی اس شدت سے نہیں پھیلا جو شدت امریکہ جیسے ممالک میں ہے، جو اس وباء کے سامنے بالکل بے بس ہو چکا ہے، لگتا ہے، دنیا کو نیو ورلڈ آرڈر کا پہاڑا پڑھانے والا دنیا کا واحد سپر پاور ملک امریکہ،،،، آج بالکل۔۔ زیرو۔۔ ہو چکا ہے۔ بلکہ جتنا “پاور فل” ملک تھا قدرت کے ایک معمولی سے صور پھونکنے کے سامنے روئی  کے گالوں کی طرح اڑ کر رہ گیا ہے۔ ہر کسی کو اپنی اپنی پڑ گئی ہے، بالکل قیامت کا منظر لگتا ہے۔ لیکن ادھر اپنے ملک کے حالات جو ہمارا  میڈیا دکھا رہا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ یہاں سب اچھا ہے، کوئی اتنی بڑی بات نہیں، ، پوری دنیا میں انسانی، سماجی، معاشی، معاشرتی  تباہی اور بربادی کے باوجود جیسے  یہ وباء پاکستان میں ابھی تک تو ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکی۔ ظاہر ہے  درد کا احساس اسکی سسکیوں سے ہوتا ہے،،، جتنا درد  ذیادہ ہوگا چیخیں اتنی ہی ذیادہ  بلند  اور دردناک ہوتی ہیں اورجو بالکل  ایک فطری عمل ہے ۔ 8 مارچ کو ہمارے ہاں کچھ بھی نہیں تھا، اور آج اموات140 کا ہندسہ کراس کر چکی ہیں(یاد رہے ایدھی ذرائع کے مطابق  اسمیں ایک ہی روز  میں  صرف کراچی میں 400 ڈیڈ باڈیز کا لایا جانا شامل نہیں ) اسکے علاوہ ہزاروں متاثرہ اشخاص زیر علاج اور ہزاروں ہی زیر مشاہدہ ہیں لیکن میرے نزدیک جو رویہ ہمارے نیشنل ٹی وی  چینلز نے اپنایا ہوا ہے نہایت ہی شرمناک اور بے ہودہ ہے اور ناراض قدرت کو مزید ناراضگی پر ابھارنے کے مترادف ہے۔ کہتے ہیں افراد اور اقوام  اپنے مزاجوں اور عمومی رویوں سے پہچانے جاتے ہیں اور ذرائع ابلاغ ہی ان رویوں کے سب سے بڑے نشریاتی فورم ہوتے ہیں، جس سے دوسری اقوام ان مزاجوں کو ماپتے ہیں ۔ لیکن افسوس، دکھ اور امتحان  کی اس گھڑی میں  بھی ہمارا میڈیا بالکل الٹ دکھا رہا ہے۔ جس وقت ٹی وی آن کرو، بے ہودگی اور بد تہذیبی کا ایک طوفان بپا ہو جاتا ہے، سیکڑوں، ہزاروں ہلاکتوں کی خبریں اور تعداد جہاں چیختی چنگھاڑتی ۔۔ بیک گراونڈ موسیقی۔۔ کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ فلیش کی جا رہی ہوتی ہے، اسکے فورا” بعد اچھلتی ناچتی اداکاراوں کے

کالے رنگ دا پراندا 

میرے سجنا لے آندا

وے میں چم چم رکھدی پھراں 

تے پباں بھار نچدی پھراں

  کے منحوس  بول کانوں سے ٹکراتے ہیں تو آج کے اس خوف کے ماحول میں اکثر لوگ جو تسبیحات،  ذکر ازکار وغیرہ پڑھ رہے ہوتے ہیں تو فورا” توبہ استغفار کرتے کانوں کو ہاتھ لگا کر اس بے رحم اور  لالچی میڈیا کی۔۔ بےحسی۔۔  پر افسوس کرتے ہیں۔ پوری دنیا اسوقت اپنی زندگی اور ہمارا الیکٹرونک میڈ یا اپنی دولت کی جنگ لڑتے نظر آتا ہے۔ اس ڈریکولے کو تو جیسے موت کا خوف ہی نہیں ہے۔ جو اشتہار دیکھو، اخلاق سے گرا ہوا، ہم اشتہارت کے خلاف نہیں،  یہ ایک بہت بڑا مارکیٹنگ کا ذریعہ ہے اور کچھ چینلز جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں نہایت مثبت انداز میں  اپنے پروگرام ترتیب دیتے ہیں، ایک آدھ سے تو باقاعدہ  آذان بھی نشر ہوتی ہے اور جو  ذیادہ سے ذیادہ معاشرہ ملک اور قوم کی فلاح کا کام کرتے ہیں، لیکن چیزیں بیچنے کیلے اخلاق سے اتنا گرنے کی کیا ضرورت ہے؟ عام حالات میں تو کچھ برداشت ہو سکتا ہے لیکن جب آپ اور آپ کے خاندان پر موت کی تلوار لٹک رہی ہو تو ان حالات میں ایسے کمرشل بے شرمی اور بے ہودگی نہیں توپھر اور کیا ہے؟؟؟۔  یہ وہ نہیں جو عام آدمی کا درد ہے،جسکا اظہار ہمارا میڈیا کر رہا ہے۔ حکومت کا کوئی بڑا اسکا نوٹس کیوں نہیں لے رہا؟؟؟، میڈیا کی بد اخلاقیوں اور بد تہذیبیوں پر ۔۔کڑا  لاک ڈاؤن ۔۔ کیوں نہیں ہوتا۔ پیمرا کہاں سو رہا ہے،  لیکن لگتا ہے پیمرا واقعی کافی عرصے سے سو رہا ہے کیونکہ اگر اسکا  ایک بھی ممبر جاگ رہا ہوتا تو۔۔ ویٹ کریم۔۔ جیسااخلاق باختہ اور  لچر اور بے ہودہ قسم کا اشتہار کبھی آن ائر نہ ہو پاتا۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں