اخباری صنعت،ایجنسیاں اور وزارت اطلاعات! ——— (قلم کی جنگ:عقیل ترین)

اس وقت کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا میڈیا اس ملک کہ اب بھی چوتھا ستون ہے؟ یااب اس ملک میں صرف 2 ہی ستون بچ گئے ہیں ؟ کپتان کرونا کے خوف سے غربا کو مرتا نہیں دیکھ سکتا لیکن یہاں پر اسکی ٹیم کی نالائقیوں سے اخباری صنعت حالت نزع میں ہے،ہزاروں صحافی اور ایڈورٹائزنگ کے شعبہ سے وابستہ خاندان فاقوں کے در پہ ہیں !اس سے قبل کہ میں اپنا آرٹیکل شروع کروں میرا سوال یہ ہے کہ کیا میڈیا آج بھی ایک صنعت ہے؟کیا اسے انڈسٹری کا درجہ کبھی ملا؟اگر اسکا جواب ہاں میں ہے تو پھر اسکے ریگرلیٹرزکون ہیں، اگر وزارت اطلاعات ریگولیٹرز ہے تواس میڈیا کے معاملات کے حل کیلئے رول ادا نہ کرنے پر کٹہرے میں کھڑی ہے ۔
گزشتہ دن کے آرٹیکل کا مجھے بے پناہ فیڈ بیک ملا ۔مجھے فخر ہے کہ ان جینوئن پبلی کیشنز / اخبارات کی آواز بنا جو حالت نرع میں بھی ادھر ادھر سے مانگ کر، کرائے روک کر بجلی کے بل جمع کرا کر ،سٹاف کو آدھی پوری تنخواہیں دیکر رات کا درد سہہ کر صبح ایک تازہ اخبار مارکیٹ پہنچاتے ہیں، ان کو بوگس اخبارات کی فہرست میں ڈال کر ایک مافیا ایک گروہ اپنے اشتہارات کا کوانٹم بڑھانا چاہ رہا ہے ۔مجھے گھن آرہی ہے کہ کیا اخبارات کی انڈسٹری میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو گدھ سے بھی بدتر ہوگئے ہیں کہ اپنے زندہ مگر نحیف برادری کا گوشت نوچنے پر اتر آئے ہیں ۔میں جینوئن اخبارات چاہے وہ مٹھی بھر چھپتے ہوں یا ہزاروں میں ان کیساتھ کھڑا ہوں ۔
مجھے حیرت یہ ہے کہ جس صحافی نے بھی بوگس اخبارات کی فہرست بنائی اس نے یہ تک گوارہ نہ کیا کہ وہ اخبار مارکیٹ کا چکر لگالے ۔اس نے یہ تک گوارہ نہ کیا کہ جناب ٹکا خان سے ہی پوچھ لیتاکہ، خان صاحب!ان اخبارات کی حیثیت تو بتا دیں ؟لیکن چونکہ مقصد کچھ اور تھا لہذا فہرست لمبی کرنا ضروری تھا۔
مجھے اس شہر کے ایک سینئر اخبار نویس کا فون آیا جو کہ بلوچستان میں ایک بڑے اخبار کے مالک بھی ہیں اور اے پی این ایس میں بھی خاصے ایکٹو ہیں ۔انہوں نے سلام دعا کے بعد پہلا سوال ہی یہ پوچھا کہ خیر ہے ترین صاحب!آپ طاہر حسن کی بہت تعریف کررہے ہیں آجکل ؟تو میں نے جواب دیا کہ سر !ہمارے اخبار کے اشتہارات کو دیکھ لیں اگر آپ کو یہ لگے کہ میں نے آرٹیکل ان کے اشتہارات دینے کے صلے میں لکھا تو اسکا جواب یہ ہے کہ گزشتہ 6 ماہ سے ہمارے حالات پی آئی ڈیرے باعث پتلے ہوگئے ہیں ۔خیر انہوں نے کہا کہ آپ نے جو طاہر حسن کو تجاویز دی ہیں وہ بڑی قیمتی ہیں ۔پہلے تو یہ کلیئر کرلیں کہ 2 ارب 85 کروڑ کے اشتہارات کی بات اس طرح چلی کہ حکومت نے میڈیا باڈیز کو کہاکہ پی ٹی آئی حکومت نے زیادہ میڈیا دیاہے۔یہ پی ٹی آئی حکومت کا اے پی این ایس کے اس سوال کا جواب تھا کہ آپ کے دور میں اشتہارات کا کوانٹم کم ہوگیا ہے تو حکومت نے بتایا کہ نہیں جناب!یہ آج تک پی ٹی آئی نے 2 ارب 85 کروڑ کے اشتہارات دیئے ہیں تو اس پر کھوج لگی کہ یہ اشتہارات کن کو ملے؟تو فہرست بنانے والے نے جو فہرست بنائی اس میں بیشتر ڈمیوں کیساتھ جینوئن اخبارات کے نام بھی ڈال دیئے جس کی اسے تحقیق کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے نہ کی۔انہوں نے بتایا کہ یہ جو آپ نے کلائنٹ میڈیا کھولنے کی بات کی ہے یہ ہی اصل میں تمام مسائل کا حل ہے ۔اس پر مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے حامی بھی بھری لیکن پھر اس پر عملدآمد نہ ہوسکا ۔جہاں تک بات ہے پی آئی او طاہر حسن کی تووہ کہتے ہیں کہ وہ کلائنٹ میڈیا کھولنا چاہتے ہیں لیکن حکومت میڈیا پالیسی کو من وعن اگر نافذ کرتی ہے تو اس میں کلائنٹ بنیں پی آئی ڈی ہی بااختیار ہے ۔انکے مطابق طاہر حسن سے میڈیا کو بہت توقعات تھیں لیکن اب وہ مایوس ہیں،
اے پی این ایس کے اس دوست کا کہنا تھا کہ تھا حکومت نے خودکو گرداب میں پھنسا دیا ہے ایک تو کلائنٹ میڈیا کے اختیارات سلب کرکے اور دوسر ا من مانی کرکے حالانکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ میڈیا انڈسٹری کو ریلیف دیتی لیکن وہ الٹا اسے ختم کرنے کے درپے ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کا اخبار کوئٹہ کا بڑا اخبار ہے ۔پی آئی ڈی اپنے میڈیا میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کو بالکل ہی نظر انداز کردی ہے ۔کیونکہ اسکا وژن کلائنٹ جتنا نہیں ہے ۔لہذا میڈیا انڈسٹری اور خود وزرات اطلاعات کی بقا اسی میں ہے کہ وہ پرنٹ میڈیا کو ساتھ لیکر چلے ورنہ اگر میڈیا انڈسٹری نہیں رہییگی تو وزارت اطلاعات کا حجم بھی نہیں رہیگا اور نہ ہی انفارمیشن کیڈر کی ضرورت رہیگی ۔میں نے اس پر وزارت اطلاعات کے ایک عہدیدار سے بات کی تواسکا کہنا تھا کہ پی آئی ڈی وزارت اطلاعات یا کیبنٹ ڈویژن کی طرف سے آنیوالی پالیسی کے تحت کام کررہی ہے ۔اس میں طاہر حسن یا مشیر اطلاعات کا کوئی کردار نہیں ۔اس پر میرا سوال یہ ہے کہ اگر وزرات اطلاعات میڈیا انڈسٹری کے مسائل کو وزیراعظم یا متعلقہ فورم پر اجاگر نہیں کرسکتی ۔ان کے حق کیلئے بول نہیں سکتی تو اسکا وجود ہی ناجائز ہے ۔کیونکہ تمام وزارتیں اپنے متعلقہ محکموں صنعتوں کیلئے بات کرتی ہیں انکے مسائل حل کرتی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ طاہر حسن اس پر فائٹ کررہے ہونگے لیکن اگر پھر بھی وہ میڈیا انڈسٹری کیلئے سود مند نہیں تو ان کو یہ عہدہ چھوڑ دینا چاہیے ۔میر ی ایجنسیوں کے معاملات پر پاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن کے ایک سینئر عہدیدار سے بات ہوئی تو انہوں کہا کہ اگر چہ ایسوسی ایشن نے اشتہارات چلا کر گونگلووں سے مٹی جھاڑی ہے ۔ایسوسی ایشن کو چاہیے تھا کہ وہ فرنٹ فٹ پر جاکر کھیلتی اور نئی میڈیا پالیسی کیخلاف عدالت جاتی یا وزیراعظم عمران خان سے ملتی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔انہوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر وزارت اطلاعات کے 15 اور 85 فیصد پالیسی سے متفق ہوں کہ ہم کیوں 85 فیصدکی ذمہ داری لیں ؟کیوں ہم اے پی این ایس سے Suspend ہوں ؟لیکن میں یہ سمجھتاہوں کہ حکومت کو کلاسفائیڈ خود ریلز کرنے اور اس میں 15 فیصد اشتہاری ایجنسیوں کو نہ دینے کا فیصلہ 400 ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے 10 ہزار خاندانوں کے پیٹ پرلات مارنے کے برابر ہے ۔انہوں ننے سوال اٹھایا کہ کیا پی آئی ڈی 400ایجنسیوں میں بیٹھے تخلیقی برین جتنا کام کرسکتی ہے ؟کیا کلائنٹ کا میڈیا ایک ہی دن میں ریلیز کراسکتی ہے ؟ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں بغیر کسی چارجز کے حکومت کلائنٹ اور اخبارات کو ڈیزائن ٹرانسلیشن ،پی آئی ڈی نمبر ز ریلیز اور بلوں کی کلیئرنس کی مفت سروس دیتی تھی ۔انہوں نے وزیراعظم کے حوالے سے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو کسی نے اس پر بریف ہی نہیں کیا مجھے لگتا ہے کہ میڈیا اور حکومت کیلئے ایک بار پھر 97 جیسی صورتحال پیدا ہونیوالی ہے کیونکہ کلائنٹ کو پتہ نہیں چلے گا کہ اشتہارکہاں چھپا ؟ اخبار کا بل پی آئی ڈی کے رحم وکرم پر ہوگا اور میڈیا کے اربوں روپے 2/3 ماہ میں پھنس کر رہ جائینگے لہذا وزارت اطلاعات فور ی طور پر کلاسفائیڈ اشتہار ایجنسیوں سے ریلیز کرائے اس سے ایجنسیوں میں روزگار کا مسئلہ نہیں ہوگا ۔اور حکومت کو اربوں روپے سالانہ پر ایک نئی ٹیم کو بھرتی بھی نہیں کرنا پڑے گا ۔اشتہاری ایجنسی سے تعلق رکھنے والے اس دوست نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سیکرٹری اطلاعات مسٹر درانی اور پی آئی او اطاہر حسن کلائنٹ میڈیا اوپن کرکے اور کلاسفائیڈ ایجنسیوں کے ذریعے 15 اور 85 فیصد کے حساب سے جاری کرانے پر فیصلہ اگرکرالیں تو میڈیا انڈسٹری اور اشتہاری صنعت ڈوبنے سے بچ جائینگے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس پرکوئی اعتراض نہیں کہ ایجنسیوں کو 15 فیصد دیکر باقی 85 فیصد رقم میڈیا ہائوسز کو پی آئی ڈی خود کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں