تعلیمی نظام۔۔۔۔۔۔بچوں پر گراں……………وقاص منیر چوہدری

ریلوے اسٹیشن پر ریل کی سیٹی کے ساتھ ہی سر خ کپڑوں میں ملبوس سر پر رومال باندھے آپ کے سامان کا بوجھ اٹھانے والے قلی سے تو تقریبا سب ہی واقف ہوں گے کچھ سبزی منڈی میں بھاری بوریاں ٹرکوں سے گوداموں اور پھر گاڑیوں تک پہنچانے والے مزدوروں سے واقف ہوں گے گرمی سردی دھوپ بارش تھکا جسم پسینے میں ڈوبے ہو ئے بس وزن اٹھانے اور کام میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن کبھی آپ نے سکول جاتے معصوم بچے دیکھے ہیں۔ بیچاروں کا اترا ہوا منہ،ڈھلکے ہوئے کندھے، خود کو سنبھالیں یا اپنا بستہ,ڈبل ڈبل کتابیں، ورک بک، ایکٹیوٹی بک، نوٹ بک اور پتا نہیں کون کون سی بکس، بستوں میں بھر کر معصوم بچوں پر لاد کر صبح اسکول آتے اور شام کو وہی بوجھ لاد کر گھر جاتے ہیں۔ آپ نے نہیں دیکھے؟ تو فرصت نکال کر ضرور دیکھیے گا۔افسو س یہ ہے کہ اسکو ل تو غا فل ہے ہی، والدین بھی آنکھیں موندھے اور کچھ حد تک بے بس نظر آتے ہیں۔ ذرا سوچیئے یہ ہما را تعلیمی نظام ہے کہ ایک بچے پر 14سے زیا دہ مضا مین کا بو جھ(کا پیاں اور کتابیں)اور اس میں بھی ایک مضمون کی ایک عددسے زیا دہ کاپیاں یقین ان کی ذہنی صلا حیت کو تو نہیں بڑھا ئیں گی بلکہ ان کو تھکا دینے کے لیے کافی ہیں۔اور جب یہ بچے بھاری بستے کے ساتھ اپنے گھر پہنچتے ہیں تو اپنے والدین کوشدید تھکا وٹ کی شکا یت کرتے ہیں اور وہ بقیہ دن میں چست اور توانا نہیں رہتے۔والدین میں نئے نظام تعلیم نے یہ فکر پیدا کر دی ہے کہ گود میں پلنے والا بچہ جلد از جلد اسکول داخل کرانے سے شاید وہ زیادہ ذہین اور عقل مند بن جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ جس بچے کو اپنی پیدائش کے بعد پانچ سال ماں کی گود سے گھر کی تہذیب وتمدن اور رسم ورواج سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ اب بھاری بستے کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔یوں والدین کو بھی ایک طرح کی آزادی حاصل ہو جاتی ہے اور وہ لوگوں کو یہ بتانے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کا کمسن بچہ اسکول جانے لگا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں پرکتابوں کابوجھ لادنا بچوں کی بنیادی نشوونما روک دیتا ہے اگرآپ صبح سویرے سکول جاتے بچوں کے بستوں کا وزن کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ معصوم بچے کسی قدر مشکل سے یہ وزن اٹھائے ہوا سکول جا رہے ہوتے ہیں۔ دوسری کلاس کے بچے کی عمر 7تا 8سال جبکہ سکول بیک کا وزن 20تا 22کلو ہوتا ہے۔ پہلی کلاس کے بچے کی عمر 6تا 7برس اور وزن 16سے18کلو ہوتا ہے جبکہ کے جی کے 5تا 6سال کے بچے کا وزن 14سے 16کلو تک ہوتا ہے ۔ان پر کتابوں کا وزن بلحاظ عمر اور وزن زیادہ ہوتا ہے۔ سکول بیگ کا وزن بچے کے وزن کا 15فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہیے لیکن ان کے جھکے ہوئے کندھوں پر بیگز کا وزن دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ گھر کی دہلیز کسی سزا کے تحت پار کر رہے ہوں۔ ترقی یافتہ ممالک نے اس کا حل ای بک کے ذریعے نکلا مگر ترقی پذیر ممالک جن پر درآمدی تعلیم مسلط کردی گئی ۔ وہ کسی اور کے رنگ میں رنگے گئے۔ اس مسئلہ سے چھٹکارہ پانا ان کے لئے ممکن نہ ہوسکا ان کی حالت آدھا تیتر ،آدھا بٹیر والی ہو گئی کمر کے ساتھ لٹکے بستے کے وزن سے کندھے جھکے ہوتے ہیں ، پک اینڈ ڈراپ دینے والی گاڑیوں کی چھتوں اور سامنے لگے لوہے کے راڈ بستوں سے بھرے ہوتے ہیں۔بھاری بستہ بچوں کی علمی صلاحیت میں اضا فہ نہیں کر تا بلکہ ان کی صحت کو خطر ے میں ڈالتا ہے۔ کمر متا ثر ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کے ہاتھوں کی کلائی کے پٹھے اور ٹیشوز بھی متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے یعنی پہلے پٹھوں میں تنائو
ہوتا ہے، پھر ان میں سوزش ہو جاتی ہے۔ جو کمسن بچوں کے لیے تکلیف دہ عمل ہے اس شکا یت کونر سری جماعت سے لے کر پنجم جماعت تک کے طالب علم اکثر کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں ماہرین صحت کے مطابق زیادہ وزن اٹھانے والے بچوں کی نشوو نما شدید طور پر متاثر ہوتی ہے چھوٹے بچوں کا ایک تو وزن کم رہ جاتا ہے دوسرا اس کا قدوزن اٹھانے کی بنا پر ایک جگہ پر رک جاتا ہے.بچے جب سکول جاتے ہیں،یہ ننھے بچے سکول جانے سے کم، اور وزنی سکول بیگز اٹھانے کی وجہ سے تھک جاتے ہیں اور بعض اوقات اسی سبب سکول نہ جانے کے بہانے بھی تراشتے رہتے ہیں۔مغربی ممالک میں اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ سکول، کالج اور یونیورسٹیز میں ہر بچے کی ایک مخصوص الماری یا شیلف ہوتی ہے، جہاں وہ اپنی کتابیں اور ضروریات کی دیگر اشیا رکھ سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں موجود سکول انتظامیہ کوبھی لازما اس حوالے سے کچھ سوچنا چاہئے، کیوں کہ معصوم بچے کتابوں کا وزنی بوجھ نہیں اٹھا سکتے اور یہ بوجھ انہیں سکول سے بھی متنفر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ لہذا ایک ایسا طریقہ کار ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے جس کی بدولت بچوں کے کاندھوں سے کتابوں کا وزن کم ہو سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں