1971 سے2022۔ پی این ایس غازی کی دھاک —– ثاقب حسن لودھی

بلاشبہ موجودہ دنیا میں کسی بھی ملک کے لیے اس کی جغرافیائی حیثیث قیمتی اثاثہ ہوتی ہے۔ آج 4 دسمبر کا وہ تاریخی دن ہے جب پاک بحریہ کے چاق و چوبند دستے پی۔این۔ ایس “غازی” کے شہداء کی یاد میں وطن سے ہر قیمت پر وفاداری کے عہد کو ایک بار پھر دہرا رہے ہیں۔ یہ وہی ‘غازی’ ہے جو 1971 کی جنگ میں دشمن کی نظروں سے اوجھل اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے بدقسمتی سے اپنی ہی بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے تباہ ہو گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں تقریبا 85افسران جام شہادت نوش کر گئے تھے جن کی جرات و بہادری کو ہر سال خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ گو کہ پی این ایس غازی بہت کم عرصہ تک پاکستانی فلیٹ کا حصہ رہی لیکن اس کی دھاک اور دہشت سے آج بھی دشمن کانپ جاتا ہے۔ اگر ہم 1971 کی جنگ کا مختصر جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ جنگ بھارت کی غیر قانونی و انتہا پسندانہ سوچ کی عکاسی تھی۔ عالمی قوانین کے مطابق کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا اختیار نہیں رکھتا مگر بھارت کی جانب سے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مکتی باہنی کے ذریعے مشرقی پاکستان میں شورش پھیلائی گئی۔ بعد ازاں بھارت کی جانب سے باقاعدہ جنگ چھیڑے جانے کے بعد پاکستان کے پاس صرف بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا آپشن باقی تھا۔ پاک بحریہ کے پاس پی این ایس غازی کی صورت میں ڈیزل الیکٹرک سب میرین موجود تھی جو بھارت کے’وکرانت’ نامی ائیر کرافٹ کئیریر کو تباہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ لہذا بھارتی افسران کی جانب سے وکرانت کو ‘محفوظ مقام’ پر منتقل کیا گیااور ‘غازی’ کا مقابلہ کرنے کے لیے خلیج بنگال میں دو جنگی بحری جہاز روانہ کیے گئے۔ ان سب کی نظروں سے اوجھل پی این ایس غازی بھارتی کیمپ کے انتہائی قریب پہنچنے میں کامیاب رہی۔ 4 دسمبر کی رات بھارتی بحریہ کے پڑاو میں اس وقت کھلبلی مچ گئی جس وقت زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی گئی۔ بھارتی بحریہ کے سابق کموڈور جیکب کے مطابق دھماکے کے آوازیں اس قدر شدید تھیں کہ انہیں گمان ہوا کھ شایدپی این ایس غازی کی جانب سے شدید حملہ ہو گیا ہے۔ بعد ازاں 5 دن کی مسلسل غوطہ خوری کے نتیجے کے مطابق حقیقت معلوم ہوئی کہ پی این ایس غازی اپنی ہی جانب سے بچھائی جانے والی بارودی سرنگ کے پھٹنے کی وجہ سے تباہ ہوئی۔
بھارت کی جانب سے اس کو اپنی کامیابی گردانا گیا اور اس وقوعہ کے 5 دن بعد 9 دسمبر کو اس کو بھارتی بحریہ کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ یاد رہے 9 دسمبر کا دن بھی وہ تاریخی نوعیت کا دن ہے جب پی این ایس ‘ہنگور ‘ نے بھارتی بحریہ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھنے جانے والے آئی این ایس’ ککری’ کو شکست دی تھی۔ مبصرین کے مطابق ککری کی شکست سے تو جہ ہٹانے کی خاطر بدقسمت غازی کو اپنی کامیابی بتایا گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار بھارتی بحریہ کی جانب سے 5 دن تک اپنی خود ساختہ کامیابی کا اعلان کیوں نہ کیا گیا ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق 2010 میں بھارتی سرکار کی جانب سے غازی سے متعلق تمام ریکارڈ کو ضائع کر دیا گیا تھا۔ یہ تمام سوالات اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن کی طرح اپنی عوام کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ حال ہی میں فروری 2017 کے قیدی بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو ایوارڈ سے نواز کر بھارت دنیا کی توجہ پاکستان کی جنگی کامیابیوں سے ہٹانا چاہتا ہے۔
جنگ کے طور طریقے بدل گئے ہیں اور اب غیر روایتی انداز میں دشمن کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارت بالی ووڈ کے ذریعے حقائق کو مسخ کر رہا ہے۔ بھارت کا غازی سے لیکر ابھی نندن تک کے تمام جھوٹ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکے ہیں۔دنیا یہ جانتی ہے کہ بحری جنگ زمینی اور فضائی جنگ سے قدرے مختلف ہے اور اس میں جنگی حکمت عملی بنا کر اپنی صلاحیت سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے بہت مشکل ہوتا ہے۔ پی این ایس غازی کا دشمن کی نظروں سے اوجھل ہو کر بھارتی کیمپ کے نز دیک پہنچ جانا اور بعد ازاں پی این ایس ہنگور کی جانب سے آئی این ایس ککری کو شکست دینا اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ پاک بحریہ جنگی حکمت عملی بنانے اور آپریشنل لیول پر اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بھارتی بحریہ سے بہت بہتر ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی سفید وردی میں ملبوس پاک بحریہ کے جوان دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔ پاکستان کی بحری حدود میں 50 ہزار مربع کلومیٹر کا اضافہ اورمسلسل سات ‘ امن مشقوں ‘ کا انعقاد اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ پاک بحریہ نہ صرف تمام دوست ممالک سے امن اور برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے کی خواہاں ہے بلکہ کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ پاک بحریہ نے ماضی میں بھی قومی دفاع اور سلامتی کی خاطر جانیں قربان کی ہیں اور آج کے تاریخی دن قوم سے ایک بار پھر وعدہ ہے کہ دشمن چاہے کتنا ہی طاقت ور اور تعداد میں بڑا کیوں نہ ہو، پاکستان کی بحری افواج اپنے ملک و قوم کی ایک ایک انچ کی حفاظت کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں