شعور، معاشرہ اور نظام ……. قادر خان یوسف زئی

اگر کسی معاشرے میں ہر طرف فساد ہی فساد رونما ہوجائے اور کوئی شے اپنی اصلی حالت پر نہ رہے تو اس کا لازمی نتیجہ عالمگیر مایوسی ہوتا ہے۔ مایوسی کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو سوجھتا نہیں کہ ان حالات کو سدھارنے کیلئے کیا کیا جائے، ساری قوم، اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی، مذہبی جماعت کے ساتھ ایک دوسرے کو مورد الزام قرار دینے میں مصروف رہتی ہے۔ ہر شخص ان بگڑے ہوئے حالات کا شکوہ ِ گر ہوکردوسروں کو اس کا ذمے دار قرار دے کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ میں اپنے فریضہ سے سبکدوش ہو گیا۔ لیڈر اپنی تقریر میں قوم کو کوستے تو اپنی مخالف جماعت کے خلاف ہر سپر لے کر کھڑے ہو جاتے، لیڈر قوم سے شکوہ کناں کہ وہ کچھ کرتی نہیں اور قوم لیڈروں کو مطعون کرتی رہتی ہے کہ وہ بالکل نکمے اور بے ایمان ہیں۔ دور جدید میں سوشل میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور کسی بھی امر کی تصدیق کئے بغیر خبر یا بیان کو آگے بڑھا دینا جیسے ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے ایک دوسرے پر الزامات کی بو چھاڑ کی موجودہ حالات کے ذمے دار ہم نہیں تم ہو، ملک و قوم کا بیڑا غرق ہم نے نہیں تم نے کیا ہے۔ ملک کے آج جو حالت ہو گئی ہے اس کا ذمے دار کسی ایک شخص یا جماعت کو ٹھہرانا بھی سب سے بڑی بے وقوفی ہوگی۔ کسی ادارے کو مقدس گائے سمجھ کر اس کی غلطیوں کو فراموش کر دینا اس سے بڑی فاش غلطی ہوگی اور ان جیسوں کے پیچھے چلنے والے یہ کہہ کر بری الزمہ نہیں ہو سکتے کہ ہم نے تو اطاعت کی تھی، سو ان کی وجہ سے ہم گمراہ ہوئے، ہمارا تو کوئی قصور نہیں۔ انہوں نے ہمیں درست راستہ نہیں دکھایا تو کیا اس استدلال کو عقل کی روشنی میں تسلیم کیا جا سکتا ہے تو اس کا جواب قطعی طور پر اثبات میں نہیں دیا جا سکتا۔
اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش ہی نہیں کہ قوموں کی تباہی اور ترقی میں لیڈروں کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ یہاں اس امر کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ہر نسل (عصر یا زمانہ) کے لوگ اپنی تباہی اور بربادی کیلئے ان لوگوں کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں جو ان سے پہلے ہو گذرے تھے، عمومی طور پر یہی سننے کو ملے گا کہ ہمارے پہلوں نے یہ کچھ کیا اور ہم اس کی پاداش میں نازک دور سے گذر رہے ہیں، ان کی یہ عذر تراشیاں قابل قبول کیونکر مانی جا سکتی ہے کیونکہ ان کے متعلق بھی یہی کچھ ان کے مخالف بھی کہتے رہے ہیں، اگر ایک کو سچ مان لیا جائے تو پھر سب کو سچا ہی ماننا ہوگا۔ اس لیے اس میزان میں کسی کو سچا ماننا کیلئے ضروری ہے کہ اس کے قول و فعل کو دیکھ لیا جائے اور اپنی نگاہوں سے (بصری و عقلی) رنگ دار عینک کو اتار دیا جائے۔اگر پہلوں کا تصور یہ ہے کہ انہوں نے اپنی آنے والی نسل کی تعلیم و تربیت غلط کی اور ترقی یافتہ بنانے میں مجرمانہ غفلت برت کر اس مسائل کو آنے والے لوگوں کی طرف بھی منتقل کردیا تو بعد میں آنے والوں کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے جانتے بوجھتے اس غلط معاشرے کو قائم کیوں رکھا۔ جس کا نتیجہ آج ہمیں دنیا میں ذلت و رسوائی کی صورت میں مل رہا ہے۔ انہوں نے آخر کیوں اسے بدلنے کی کوشش نہیں کی، اس اعتبار سے پہلے اور پیچھے والے سب برابر ہوئے۔اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان میں گویا خود ہمارا ہی نقشہ کھینچا گیا ہے، پاکستان ایک متاع گراں بہا تھی جو ہمیں فطرت کی طرف سے بطور نعمت ملی لیکن ہم نے اس نعمت کی سخت ناقدری کی۔
غفلتوں اور جانب داریوں نے قوم کو اس کنویں میں دھکیل کر بے یقینی و بے اعتمادی کے کارواں سرائے میں آن اُتارا کہ کبھی ہم مرنے والے کو کوستے ہیں کہ انہوں نے فلاں غلطی کی تو کبھی ہم کسی جماعت کو قصور وار سمجھتے ہیں کہ فلاں فیصلہ صحیح کیوں نہیں کیا کہ جس کی وجہ سے ملک و قوم مسلسل مسائل سے گذر رہے ہیں اور ہر آنے والا دن دل پر پہاڑ کا بوجھ بن کر لیڈروں کو کوستے رہتے ہیں اور لیڈر حسب روایت عوا م میں کیڑے نکالتے ہیں، ملک کو در پیش بدترین حالات کے شعلے دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ سوال اب بھی یہی ہے کہ ان حالات سے نکلنے کی کوئی صورت بھی ہے اور اگر ہے تو اسے عمل میں لانے کا طریق کیا ہے؟
جب ہم پاکستان کے موجودہ معاشرے پر نگاہ ڈالیں گے تو یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ اس میں کوئی خاص پرز ہ خراب نہیں جس کے بدلنے سے معاشرے کی اصلاح ہوجائے گی۔ یہ خرابی دراصل پورے نظام کی ہے جو ہاں کارفرما ہے، اس لیے ہمارے معاشرے کے اصلاح کی ایک ہی صورت ہے کہ ہر شخص اپنی ذمے داری کا احساس کرے۔ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہے۔ کوئی انتظامی امور میں اپنی ریڈ لائن کو کراس نہ کرے۔ بات جب پاکستان کی، کی جائے تو سوال یہ ہے کہ سجا لات موجودہ اس مقصد کے حصول کیلئے آئینی طریقہ ہی اختیار کرنا ہوگا۔ پاکستان ایک آئینی مملکت ہے۔ اس لیے اس میں ایک نظام کی جگہ دوسرا نظام لانے کا طریق بھی آئینی ہی ہوگا۔ آئینی تبدیلی کے معنی یہ ہیں کہ ملک کی مجالس ِ قانون ساز میں اکثریت پارلیمان کو عزت دے اور اس میں ایسے قوانین بنائے جائیں جو معاشرے میں لاگو کرکے ہر خاص و عوام شخص کو اپنی ذمے داری کا احساس ہی نہیں بلکہ ان سے ان کی صلاحیت کی مطابق کام بھی لے۔
اس امر سے انکار نہیں کہ عوام کو معاشی مشکلات اور مجبوریوں نے اس قدر کچل دیا ہے کہ انہیں ملک کے آئینی اور سیاسی معاملات میں دلچسپی ہی نہیں رہی، عوام کا سیاسی شعور بیدار ہی نہ ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جمہوری نظام میں عوام کے تعاون کے بغیر کوئی آئینی انقلاب رونما نہیں ہو سکتا لہٰذا عوام میں صحیح نگاہوں کا پیدا کرنا معاشرہ کی اصلاح کیلئے لانیفک ہے، اس کے بغیر قیامت تک بھی کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ مفاد پرست گروہ کی انتہائی کوشش یہ ہوگی کہ عوام میں صحیح نگاہ پیدا نہ ہو سکے۔ ہمیں ان مفاد پرست گروہوں اور افراد کی نشان دہی کرنی ہے۔ ملک کے دور دراز گوشوں میں جن کے نام تک سے بھی باہر کی دنیا کم واقف ہے اور وہ جس قدر تکالیف کا سامنے کرتے ہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں، انہیں سامنے لانا ہوگا یہ ہے وہ طبقہ جس پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ عوا م میں ایسی صحیح نگاہ پیدا کریں کہ وہ برے اور بھلے میں تمیز کر سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں