“تم ہی سے اے مزدورو! میری چھٹیاں ہیں آباد”……سیدہ ناجیہ شعیب احمد

بیگم جان کے آرام اور اپنی ہفتے بھر کی نیند کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے آج جی بھر کے سونے کا ارادہ تھا مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔۔۔ ساڑھے دس بجے ہی ہمارے بچوں کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے۔ چاروناچار بیگم کو بستر چھوڑنا پڑا مگر نا جی مجھے سکون سے سوتا دیکھ کر بیگم کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور پھر بچوں کی ماں نے اپنے بچوں کو مجھ معصوم پر سوار کروا کر بیدار کروا کر ہی دم لیا۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔۔۔ خیر مرتا کیا نہ کرتا اٹھنا ہی پڑا۔ ویسے راز کی بات کہ اٹھنے کے بعد مجھے بھی بھوک محسوس ہونے لگی تھی۔
اب میں اپنی دانست میں صبح ہی صبح (دن کے گیارہ بجے) دودھ، انڈے اور بیگم جان کی فرمائش پر ناشتے میں حلوہ پوری لینے گھر سے باہر نکلا۔ طویل جمائی لیتے ہوئے میں نے موٹرسائیکل نکالی۔ تب پڑوس میں رہنے والے امجد علی پر میری نظر پڑی وہ ایک ہاتھ میں غالباً اپنا لنچ (جو اخبار میں لپٹی روٹی اور رات کا سالن کی صورت میں تھا) اٹھائے دوسرے ہاتھ سے اپنی سائیکل پر لگا تالا کھولنے میں مصروف تھا، وہ بڑی عجلت میں دیکھائی دے رہا تھا۔ اوہ اللہ خیر کرے شاید بھابھی کی طبیعت بگڑ گئی یہ سوچتے ہوئے میں نے مدد کرتے ہوئے ہمدردی سے پوچھا: ”امجد بھائی! یہ صبح صبح کہاں کی تیاری ہے؟ وہ سر جھکا کر بولا: ”کام پر جارہا ہوں صہیب بھائی۔“ میں نے حیرت سے دیدے پھاڑ کر پوچھا: ”آج۔۔۔۔؟ یکم مئی کی چھٹی نہیں ہے کیا؟“
جواب ملا:” نہیں جناب! فیکٹری میں اوور ٹائم لگا ہے۔“
غربت کے مارے روزی روٹی کمانے کا کوئی مواقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے میں نے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے موٹرسائیکل اسٹارٹ کی۔ میرا گھر آبادی سے ذرا ہٹ کر ہے۔ چھوٹی موٹی خریداری کے لیے بازار جانے میں موٹرسائیکل پر پندرہ بیس منٹ لگتے ہیں۔
مین سڑک پر پہنچا تو دیکھا کہ چنگ چی رکشے پر لٹکا ہوا ایک منچلا نوجوان کنڈیکٹری کے فرائض انجام دیتے ہوئے زورو شور سے آوازیں لگا رہا تھا۔ روک روک استاد کی آواز کے ساتھ ہی اس کھچاکھچ بھری چنگ چی سے ایک ساتھ کم وبیش دس پندرہ مفلوک الحال مزدور برآمد ہوئے جنہوں نے اپنے کاندھوں پر اوزاروں کے تھیلے لاد رکھے تھے۔ چنگ چی سے اتر کر وہ اپنے اوزار سڑک کنارے سجا کر دیہاڑی کی آس میں بیٹھ گئے۔
سورج دھیرے دھیرے اپنی آب و تاب دکھا رہا تھا۔ میں نگاہیں پھیر کر آگے بڑھتا ہی چلا گیا۔ پٹرول پمپ پر بائیک میں پیٹرول ڈلوانے رکا۔ دیکھا جو لڑکا روزانہ پیٹرول پمپ پر گاڑیوں میں پٹرول بھرتا ہے آج بھی وہیں موجود تھا اس نے مسکراتے ہوئے سلام کیا۔ میں نے جواب دے کر پوچھا: ”آج تمھارا اوور ٹائم ہے؟ اس نے بجھے لہجے میں جواب دیا: ”نہیں صاحب ڈیوٹی کا وقت ہے۔“
میں وائٹ کالر جاب کرنے والا گریڈ 20 کا آفیسر ان سب محنت کش مزدوروں کو بغور دیکھ رہا تھا اور بزبانِ حال کہہ رہا تھا:
” تم ہی سے اے مزدورو! میری چھٹیاں ہیں آباد“

اپنا تبصرہ بھیجیں