نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیل….حفصہ اکبر علی

اسمان سے عشق بہت بار نازل ہوا ہے کبھی موسی پہ طور پہ تجلی رب کائنات نازل ہوئی تو کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قران مجید کی صورت میں ذکر یار نازل ہوا اور کبھی ابراہیم پر آتش نمرود میں دل عاشق کو معشوق نے تشنگی دی لیکن زمین سے جو عشق آسمان کی طرف نذر کیا گیا اس کا سب سے بہترین نمونہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے 10 محرم کو کربلا کے میدان میں پیش کیا۔
وہ مرکز پر کار عشق ہیں وہ امام برحق اور اللہ کی راہ میں دینے والی قربانی کے سب سے بڑے علمدار ہیں۔ ویسے تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو سید الشہداء کہا جاتا ہے اور بلا شبہ برحق کہا جاتا ہے مگر پورے خاندان کے ساتھ معشوق پر سراپائے ایثار ہو جانا اور نیزے پہ چڑھ جانا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شان ہے
اور کیوں نہ ہو کہ وہ عرض و سماں کے مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے چشم و چراغ اور سیدہ النساء العالمین کے لال ہے۔
انہوں نے یہ پریسیڈنٹ سیٹ کر دیا ہے کہ اگر ایک طرف دین ہو اور دوسری طرف طاغوت کی یلغار غالب ہو تب بھی اپنے کلمہ کے نام پر مر مٹ جانے سے انسان ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتا ہے۔ اسی لیے امام حسین کو جنتی نوجوانوں کا سردار بنایا جائے گا۔
پھر یہ کہنے والے کہ یزید نے تو بیعت کی آفر بھی دی تھی اور امام حسن نے بھی تو بیعت قبول کر لی تھی حضرت امام معاویہ کی تو حضرت حسین بھی تقیہ کر لیتے اور اور امن کا راستہ بنا لیتے تو یوں پورا خاندان ذبح نہ ہوتا ایسے لوگوں کے لیے ایک ہی بات ہے کہ بھئی وہ تو جنتیوں کے سردار ہیں اس لیے ہمارے بھی سردار ہیں اگر اپ کو یزید کی سرداری قبول ہے یا تھی تو اللہ اپ کا حشر بھی اس کے ساتھ ہی کرے۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم روز محشر اللہ کی عدالت میں اپنے پیارے لال امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا مقدمہ پیش کریں گے اور گواہی کے طور پہ کربلا کی مٹی سامنے رکھے گئے تو میری اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ان کے ساتھ ہی کھڑا رکھے۔
اور اس کو شہزادوں کی اقتدار کے لیے لڑائی کہنے والوں کو یوم فرقان پہ جب حق و باطل واضح ہو جائے گا حقیقت سے اشنا کرے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم نے سیرت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اپنی زندگی میں شامل نہیں کیا کہ ہم سیرت حسین پر اتنا فوکس کرتے جتنا آج کل کی سلیبرٹیز پر کرتے ہیں۔ فلاح کے نکاح میں یہ ہوا فلاں کی ڈائیورس ہو گئی یہ سب تو اج کل کے نوجوانوں کے سب سے اہم گفت و شنید ہوتی ہے لیکن تاریخ اسلام کیا ہے یہ ہمارے بڑوں نے ہمیں نہیں بتایا اور اگر بتایا ہے تو صحیح نہیں بتایا ہے۔ نتیجتا یہ اتنی بڑی قربانی فرقہ واریت کی نظر ہوتی جا رہی ہے اور دوسری طرف بدعات کا جم غفیر!!
کیا ہے کربلا؟ بس وفا کی کہانی ہے۔ اگر وفا نا نبھا سکو تو محبت کا دعویٰ نا کرنا ،کوفی نا بننا ۔ وفا والے جان سے گذر جاتے ہیں۔ جیسے امام حسین اپنے پورے خاندان سمیت بہتر نفوس قدسیہ کے ہمراہ جان سے گزر گئے مگر اپنے نانا کے دین سے بے وفائی نہیں کی۔ یہ کفر و اسلام کی جنگ نہیں تھی لیکن غلبۂ دین حق کی جدو جہد تھی۔ دین صرف کلمہ پڑھ لینے کو نہیں کہتے اللہ کا نظام اور شریعت کا قانون رائج کرنے کا مطلب دین ہے۔ آج ہم دیکھ لیں کہ ہم نے اقامت دین کے لیے کیا کیا؟ وہ امام جس نے پچس حج پیدل ادا کیے تھے جب اقدار نبوت کو توڑا گیا تو انہوں نے اپنا حج چھوڑ کر فریضۂ اقامت دین ادا کیا۔
مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا وہ واشگاف جملہ ہے جو دین کو تخت پر قائم کرنے سے کم پر غیور مسلمانوں کو راضی نہیں ہونے دیتا۔ کجا یہ جمہوریت کے کھوکھلے نعرے اور امریکہ کی غلامی!
یزید ایک شبابی کبابی اور بدکردار شخص تھا جو شریعت کا حلیہ بگاڑنے کا عظم لے کر برسرِاقتدار آیا۔ تو حسین ابن علی کی غیرت نے گوارا نا کیا کہ کوفی امت مدد کو پکارے اور وہ خطوط کے جواب میں خاموش رہیں۔ عتبہ بن یزید نے بیعت لینا چاہی تو کہا عوام کے سامنے اعلان کرو کہ یزید قبول ہے؟ پھر میں بھی سب کے سامنے بیعت کروں گا۔ مسلم بن عقیل کو اپنا سفیر بنا کر کوفی بھیجا اور اس سیکولر یزید کے خلاف چالیس ہزار لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ رات کو امام کو خط بھیجا کہ آ جائیں مدینے کے والی امت پر وقتِ ضرورت آن پہنچا ہے۔ امام نے رختِ سفر باندھا ۔ لیکن یزید کے سپاہ نے وفاداریاں بدل دیں، الکوفی لا یوفی ، سب مسلم بن عقیل کے پیچھے نماز چھوڑ کر بھاگ نکلے، اپنے گھروں کے دروازے بند کر لیے کہ کہیں امام ہمارے گھر نا آ جائیں اور ہمارے لیے وبالِ جان بن جائیں۔ مسلم بن عقیل کو ابن زیاد کے گورنر ہاوس کی چھت سے لٹکا کر زمین میں پٹخا گیا، شمع حسین کا پروانہ نورِ ھدایت پر قربان ہو گیا۔
ادھر امام نے اپنا سفر نہیں چھوڑا کیونکہ خواب میں نبی کریم نے آکر فرمایا تھا کہ اگر آپ راستہ چھوڑ گئے تو قیامت تک اس دین کی سر بلندی کے لیے کوئی نہیں نکلے گا۔ آپ نے آخر تک حکومت سے مزاکرات کیے لیکن یزید کے حواریوں نے محاصرہ کیا اور کربلہ لے گئے، وہاں پانی بند کر دیا ان مبارک نفوس پر جن کے گھر قرآن اترتا تھا۔ جو چاہتے تو آسمان جل تھل کر دیتا مگر جانتے تھے یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حضرت عثمان غنی پر پانی بند کیا تھا۔ اللہ نے قرآن میں کہہ دیا ہے میں تمہیں بھوک پیاس سے آزماؤں گا۔ سو آزمائش کی گھڑیاں تھی غیرت عباس علی اصغر کے معصوم ہونٹوں کی پیاس برداشت نا کر سکی اور وہ فرات کے کنارے پانی لینے گئے، پامردی سے لشکرِ یزید کو روندتے ہوئے نہر پہنچے مشکیزہ بھرا لیکن ایک قطرہ بھی اپنے حلق سے نہیں اتارا، دونوں بازو کٹوا لیے مگر مشکیزہ نہیں چھوڑا اور خیمے کے بہت قریب پہنچ کر قضا نے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا ۔
وفا کو ناز ہے ان پر
محبت سرجھکا کر کھڑی ہے عباس کے سامنے
اور عشق ان کے لاشے کا طواف کرتا ہے۔ کربلاء میں علی ابن طالب کے چار بیٹے شہید ہوتے ہیں ۔ حسین بن علی ، عباس بن علی، ابوبکر بن علی، عمر بن علی اور عثمان بن علی۔ لیکن ان کا نام ایک مخصوص گروہ کی جانب سے کہیں نہیں لیا جاتا۔ آہ میرے علی کے شہزادے۔ اور حسن رضی اللہ جن کو پہلے ہی زہر دے کر شہید کیا گیا انکا بیٹا قاسم اپنے والد کی وصیت امام حسین کو دیکھاتے ہیں جس میں لکھا تھا، بیٹے میرے بھائی پر کٹھن وقت آئے تو انکے آگے آگے رہنا، اجازت لے کر میدان میں اترتے ہیں اور پندرہ سال کا یہ آدابِ فرزندی سے معمور لڑکا انیس غافلوں کو جہنم واصل کرتآ ہے۔
علی اکبر ، عون و محمد بھی راہِ عشق پر قربان ہوتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر حر بن یزید بھی لشکرِ ظلمت چھوڑ کر نورِ حسینیت اختیار کرتا ہے،
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
آخر سب کے سب مرد شہید ہوگئے اور حسین ابن علی میدانِ کاگرزار میں تنہا رہ گئے۔
حب سورج کی طرح چمکتے چہرے والی زینب نے اپنی تابندہ نظروں سے بھائی کو دیکھا ہوگا
اور جاتے بھائی نے کہا بس اب جنت میں ہی ملیں گے
تو حسین کے اس آخری سلام پر لاکھوں سلام جو وہ کہہ کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔
احرامِ جنون باندھا، خیمے سے نکل کر میدان میں آئے اور فرمایا میں نے تم میں سے کسی کا قتل نہیں کیا، میں نے کوئی خطا نہیں کی، کیا تم نے خود مجھے نہیں بلایا تھا؟ کیا میں نبی کا نواسہ نہیں ہوں؟ کیا میں علی بن طالب کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا میرے نانا کا کلمہ نہیں پڑھتے تم؟ تو یزیدیوں نے کہا ہم آپکا دین رکھتے ہیں پر دنیا یزید کی چاہتے ہیں، کلمہ اللہ کا پڑھتے ہیں لیکن پوجتے اقتدار کو ہیں، نماز آپ کے پیچھے پڑھتے ہیں مگر ہاتھ باندھ کر ابنِ زیآد کے آگے کھڑے ہوتے ہیں۔ سو اس کا ہی حکم مانیں گے۔ حسین نے کہا صحیح تم اپنے آقا کی مانو، میں اپنے آقا کی مانتا ہوں۔ تیمم کر چکے تھے۔ نمازِ عصر کی نیت باندھی۔ لشکر میں ہل چل مچ گئی کسی میں جرات نا ہوتی تھی کہ اس نہتے نمازی کے قریب پہنچتا، لیکن شمر کی شیطانیت نے جوش مارا اور اس نے اپنا ناپاک تیر چلایا ، وہ حسین جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ چھوڑ کر گرنے سے بچا لیتے تھے وہ آج زمین پر گر گئے، وہ لب و رخسار جو بوسہ گاہ تھا نبی کا وہ خاک آلود ھوا۔ وہ جوان جسے بی بی فاطمہ نہ چکی پیس پیس کر پالا تھا وہ آج بھوکا پیاسا دنیآ سے رخصت ہو گیا۔ آپ کا کرتا مبارک اتارا گیا۔ کیا یہ وہی حسین نہیں تھے جن کے لیے خلیفہ عمر بن خطاب نے یمن کے گورنر کو خط لکھا تھا کہ خانوادہ رسالت کی شان کے مطابق کپڑا بھیجو ، جو آپ نے بھیجے ہیں وہ شہزادوں کو دینے کے لائق نہیں ہیں۔ امام حسین کا سر اقدس نحر کیا گیا اور جسمِ اطہر پر گھوڑے دوڑائے گئے۔ وہ مبارک جسم جو گرن سے پاؤں تک اجمل الجمیل نبی کریم سے ہو بہو مشابہ تھا۔
سر نیزے پر چڑھایا گیا اور بہتر شہداء کو کربلاکی مٹی نے کفن اوڑھایا۔
آج اسلام یتیم ہوا اور عنانِ امت یزید کے ہاتھ آ گئ۔ بیت رسالت کی شہزادیوں کو بے ردا گلیوں میں گھمایا گیا۔ تین دن کے لیے مدینے کی حرمت حلال کی گئی، سات سو صحابہ کو عام شہید کیا گیا۔ حرم کی ہر دیوار خون سے رنگی گئی ، کعبے کو جلایا گیا۔ یزید کو رضی اللہ کہنے والو یہ تو بتاؤ اس مسجد نبوی میں جب منبر رسول کے ساتھ گھوڑے باندھے گئے ، آذان و اقامت کو روکا گیا۔ سجدہ گاہِ نبوت پر گھوڑے لید کرتے تھے تو کیا یہ سب تمہیں قبول ہے؟ کیا پھر بھی یزید ہی آپ کا مولا و آقا ہے؟
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم

اپنا تبصرہ بھیجیں