جمہوریت عوام اور خوبصورت نعرے—–یاسر فہمید

ہم پاکستانی بنیادی طور پر بہت ہی جذباتی قوم ہیں اتنے جذباتی کہ ہمیں ایک خوبصورت نعرہ کے پیچھے آسانی سے لگایا جا سکتا یہ نعرہ ملی ، مذہبی یا سیاسی ہوتا ہے
ان میں سب سے زیادہ موثر اور گارگر سیاسی نعرہ وہ ہوتا ہے جس میں مذہبی عنصر شامل ہو
پچھلے ستر سال اور بالخصوص گزشتہ پچاس سالوں میں اس قوم کو بہت سے حسین نعروں سے بہلایا پھسلایا گیا اور اب تک یہی کچھ کیا جا رہا ہے یہ نعرے تخلیق کرنے والے بڑے ہی ذہین ہوتے ہیں یہ وقت اور حالات کے مطابق عوام کی دکھتی رگ کو پکڑنے ہوئے وہی نعرہ بناتے ہیں جس مسئلہ سے عوام اس وقت گزر رہی ہوتی ہے ان کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ پہلے یہ عوام کو بتاتے ہیں کہ اپ کا یہ مسئلہ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے اور موجودہ حکمران اس کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔۔۔ اس کے بعد وہ عوام کو ایک امید دلاتے ہوئے ایک سیاسی لیڈر کو مسیحا کے طور پر پیش کرتے ہیں اور سادہ لوح عوام اس نئے نعرے کے پیچھے انکھیں بند کر کے چلنا شروع کر دیتے ہیں اور جب ان کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ ایک اندھیری بند گلی میں کھڑے ہوتے ہیں
یہ سلسلہ سب سے پہلے روٹی ، کپڑا اور مکان سے شروع ہوتا ہے مگر پانچ دہائیاں بعد بھی نہ تو تین وقت کی روٹی ملی نہ تن پر کپڑا اور نہ سر پر چھت مگر نعرہ بے حد مقبول رہا اور اسی نعرے کا نیا ورژن ” بھٹو اج بھی زندہ ہے ” متعارف کروایا گیا بے شک جن کے لیے یہ نعرہ لگایا گیا تھا وہ عوام مر کھپ گئی ہے مگر وہاں بھٹو اج بھی زندہ ہے
ہم ایک بار پھر دھوکہ کھاکر روٹی کپڑا مکان اور زندہ ھے بھٹو زندہ ھے کا نعرہ چھوڑ کر قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں مگر کچھ ہی عرصہ بعد نواز شریف اپنے ابائی ملک برطانیہ قدم بڑھا جاتے ہیں مگر ہم کافی عرصہ تک قدم بڑھاو ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے لگاتے رہتے ہیں اور جب ہمیں علم ہوتا ہے کہ جس کے قدم کے ساتھ ہم چلنے کا کہہ رہے ہیں وہ تو اپنے دیس میں قدم رنجا فرما چکے ہیں
پھر ایک کسی سے نہ ڈرنے ورنے والا سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کے ساتھ وارد ہوتا ہے اور ماڈرن اسلام کا پرچار شروع کرتا ہے مگر سب سے پہلے پاکستان اس وقت بعد میں چلا جاتا ہے جب قائد اعظم کے جانشین اور ” اصلی ” مسلم لیگ کے دعویٰ والے آتے ہیں مگر جلد ہی سب سے پہلے پاکستان والا خود جا کر پردیس بیٹھ جاتا ہے اس کے فوراً بعد ایک ووٹ کو عزت دلوانے کے لیے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند ہوتا ہے مگر اس بار ووٹر نے ووٹ کو عزت دینے سے معذرت کرتے ہوئے پاکستان کو ” نواں نکور ” بنانے کے لیے نئے پاکستان کے ٹھیکیدار کو لے اتے ہیں
مگر اس ٹھیکیدار کو
” نیا پاکستان ” بنانے کے لیے مستری ” پرانے ” ہی دیے جاتے ہیں جبکہ ٹھیکیدار یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پرانے مستریوں سے ہی نہا پاکستان بنا دے گا مگر یہ ابھی لنٹر ڈال کر پلستر ہی شروع کرتا ہے کہ اسے غلط فیکٹری سے ” سریا ” خریدنے کی وجہ سے ٹھیکیداری سے ہٹا دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی بیشتر پرانے مستری بھی کام کرنے سے انکار کر دیتے ہیں
کمپنی پھر تمام پرانے اور ” تجربہ کار ” ٹھیکیداروں سے دو دو تین تین مستری اکٹھے کر کے کام کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر چونکہ یہ تمام مستری ایک دوسرے کے مقابل کام کرنے والے ٹھیکیداروں کے تھے اس لیے وہ اپنے اپنے حساب سے کام کرتے رہے مگر یہ بھی کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ انہوں نے نقشہ دیکھے بغیر ہی فورا ٹھیکہ پکڑ لیا تھا مگر جب نقشہ سامنے ایا تو انہیں پتہ چلا یہ کام تو بہت ہی مہنگا ہو چکا ہے اس لیے انہوں نے کمپنی کی منت سماجت کر کے بجٹ بڑھانے اور کسی خدا ترس ” محکمے ” سے قرض کی استدعا کی جو قبول تو کر لی گئی مگر قرض ملتے ملتے دیر ہو چکی تھی جس کی وجہ سے اس قرض سے صرف ” مستریوں ‘ کی دیہاڑیاں اور مزدوری ہی پوری سکی اور اب یہ کام دوبارہ بند کر کے عارضی طور پر چوکیدار رکھ لیا گیا ہے تاکہ جو بچا کچھا میٹریل پڑا ہوا ہے اس کو چوری ہونے سے بچایا جا سکے
اب کچھ عرصہ بعد ہی پتہ چلے گا کہ یہ چوکیدار کس حد تک حفاظت کر سکتے ہیں
اب چونکہ عوام کچھ سیانی ہو چکی ہے اس لیے اب بہت ہی سوچ سمجھ کر نیا نعرہ اور نئے خواب متعارف کروانا ہو گا ورنہ لگتا یہی ہے کہ اس بار قوم پرانے نعروں میں نہیں انے والی ، اس بار قومیت ، حب الوطنی ، قربانی اور مذہبی جذباتیت کو مکس کر کے ہی کوئی نیا نعرہ ایجاد کیا جانا وقت کی ضرورت ہے نہیں تو اس بار پاکستانی عوام ووٹ کی عزت سے پہلے ووٹر کی عزت کا نعرہ لگا سکتی ہے
اب سب مل کر میرے ساتھ ” نعرہ لگائیں ۔
پاکستان پائندہ باد

اپنا تبصرہ بھیجیں