الیکشن کا رزلٹ دو

طاہرہ حسین

الیکشن کمیشن نے جدھر الیکشن کے انعقاد میں تاخیر کی ادھر ہی الیکشن کے نتائج میں بھی بے حد تاخیر کی جا رہی ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ واقعہ پہلی بار ہی رونما ہوا ہے کہ انتخابات کے نتائج کا کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آ رہا ۔ 8 فروری 2024کو ہونے والے ملک بھر انتخابات نے ایک طرف یہ تو ثابت کر دیا تھا کہ پاکستان کی نوجوان نسل نے اپنی جمہوری رائے کا بھرپور استعمال کیا ہے اور یہ بھی کہ اب عوام پاکستان کو ترقی کی منازل پر دیکھنا چاہتی ہے مگر دوسری جانب یہ بھی دیکھا گیا کہ عوام کی رائے کا بالکل احترام نہیں کیا گیا ۔انتخابات کے نتائج کا اعلان اس قدر طویل ہو گیا ہے کہ اب پاکستان کا بچہ بچہ یہ ماننے پر مجبور ہو گیا ہے کہ” مبینہ دھاندلی” ضرور ہوئی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے تو انتخابات کے دن انتخابی نتائج میں تاخیر کی وجہ موبائل سروس اور انٹرنیٹ سروس کی معطلی کو قرار دیا تھا۔مگر اس کے باوجود نتائج دور سے دور تر ہوتے جا رہے ہیں ۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے تو مل کر وفاق میں حکومت بنانے کا اعلان کیا ہے مگر غیر مبہم نتائج عوام کا پارہ چڑھا رہے ہیں ۔باقی سیاسی جماعتیں بھی حکومت میں آنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جدھر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت بنانے میں مسلم لیگ ن کی حمایت کرنے کا اعلان کیا وہاں انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ نہیں ہو گی۔
الیکشن کمیشن کے ایک بیان کے مطابق وہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتا ہے ۔تاہم وہ یہ بھی ماننے کو تیار ہے کہ کچھ واقعات میں دھاندلی ثابت ہو چکی ہے ۔الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ دھاندلی سے متعلق بہت سی شکایات کو وصول کر رہا ہے اور ان پر فوری فیصلے بھی کیے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب کابینہ کیسی ہوگی اور کیا یہ پاکستان کو مستحکم کر سکے گی یا نہیں؟
پاکستان جس خطے میں واقع ہے وہاں اس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ پوری دنیا میں ایٹمی طاقت کی بنا پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ اس بار ملکی تاریخ کے سب سے بڑے عام اتنخابات میں 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار سے زائد افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا تاہم غیر حتمی نتائج اور مبینہ دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے عوام پریشانی کا شکار ہے ۔ عوام نے جس پارٹی کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے حق رائے دہی کا استعمال کیا وہ تو دھاندلی کی وجہ سے بلکل غائب ہو کر کہیں رہ گئی ہے۔اور اصل میں حکمرانوں نے حکومت میں آنے کی اپنی اپنی باریاں لگائی ہوئی ہیں ۔
تجزیہ کار احمد اعجاز کہتے ہیں کہ انتخابات کے بعد جس جوش و خروش سے سیاسی جماعتیں حکومت بنانے کے لیے تگ و دو کرتی ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ویسے جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ دونوں نے مجبوری میں ہاتھ ملایا ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی وزارتیں نہیں لے رہی اور آئینی عہدوں تک محدود رہنے کی ضد مسلم لیگ ن کو مجبوراً ماننا پڑی۔ اس طرح ان دونوں جماعتوں نے مجبوراََ آپس میں اتحاد تو کر لیا ہے مگر یہ حکومت کب تک چل پائے گی اس کے بارے میں قیاس کرنا کوئی مشکل نہیں۔
ملک کی پیچیدہ صورتحال دیکھتے ہوئے میں یہ کہنا چاہوں گی کہ سیاسی جماعتوں کومل بیٹھ کر آپس میں اچھے سے کوئی منصوبہ بندی کرنی چاہیے ۔ان کو ایسے نظام کو متعارف کروانا چاہیے جو آئندہ انتخابات میں دھاندلی کو جڑ سے ختم کر سکے اور شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔تاکہ ہمارے ملک میں بھی جمہوری نظام کا بول بالا ہو اور عوام اپنی مرضی سے اپنی حکومت کا انتخاب کر سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں