اسرائیل اور فلسطین کے داخلی مسائل …… قادر خان یوسف زئی

غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع بالخصوص رمضان کے مقدس مہینے میں ایک پیچیدہ مسئلے کے طور پر تاحال کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک اور عالمی برادری کی جانب سے تنازع کو حل کرنے میں مسلسل ناکامی کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ دیرپا جنگ بندی تک پہنچنے میں ناکامی کی وجہ گہرے مسائل ہیں جو محض سفارتی مذاکرات سے آگے بڑھتے ہیں، بد قسمتی سے ہزاروں انسانوں کو جنگ و انتقام کے نام پر سفاکیت کے ساتھ نسل کشی والے اسرائیل کو مغرب ، امریکہ ، برطانیہ سمیت ان مسلم اکثریت ممالک کی خاموش و کھلی حمایت شامل ہے ، جن کی وجہ سے اسرائیلی فسطائیت رکنے کا نام نہیں رہی۔ حماس کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل تنازع ختم کرنے یا غزہ سے فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان و عمل کرے ، تو دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا صرف حماس کی شکست کے ذریعے جنگ ختم کرنے کا موقف اس تعطل کو مزید بڑھا رہا ہے تاریخی شکایات، علاقائی تنازعات، اور مختلف نظریاتی نقطہ نظر کی پیچیدگیاں حل تلاش کرنے کو مشکل بنا رہی ہیں۔ مزید برآں، جغرافیائی سیاسی مفادات، طاقت کی حرکیات، اور متضاد اتحاد خطے میں تنازعات میں ثالثی کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔
اسرائیل فلسطین تنازع ایک دیرینہ مسئلہ ہے جس کے آسان حل سے انکار کیا گیا ہے۔ تشدد اور سیاسی پوزیشننگ کی سرخیوں سے ہٹ کر، اسرائیل اور فلسطین دونوں داخلی خدشات کا ایک گہرا پیچیدہ جال میں پھنسے ہوئے ہیں جو تنازعات کو برقرار رکھنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، غزہ میں ہونے والے جانی نقصان کی وجہ سے اس تنازع کی تعداد کو واضح طور پر دکھا جا سکتا ہے کہ تادم تحریر قریباََ 30000سے زیادہ فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں 12300بچے اور 8400خواتین شامل ہیں۔ ہزاروں مزید لا پتہ ہیں، خیال کیا جاتا ہے کہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، جبکہ غزہ کے 2.3ملین باشندوں کی تقریباً پوری آبادی اندرونی طور پر بے گھر ہو چکی ہے۔ اگرچہ حماس اور اسرائیلی افواج کی کارروائیاں بین الاقوامی توجہ پر حاوی ہیں، لیکن یہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کہ تنازعہ صرف ان دو فریقوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ تنازع تیزی کے ساتھ عالمی برداری کو متاثر کی نہج پر پہنچ چکا ہے ، جس کے نتائج کا اندازہ لگانے میں مایوس کن رویہ حاوی نظر آرہا ہے اور مغربی ممالک ، اس تنازع کے اثرات کو عرب و مسلم اکثریتی ممالک میں ان کے خلاف نفرتوں کو مزید بڑھا رہا ہے ۔ واضح رہے کہ اسرائیل میں، اتحادی سیاست کی پیچیدگیاں، مذہبی تقسیم، اور ریاستی ادارے کی تعمیر کے چیلنجز، سبھی تنازعات کو برقرار رکھنے میں معاون ہیں۔
اسرائیل کے لئے فلسطین پر جنگ کو برقرار رکھنے کے عمل نے حالات کو انتہائی پیچیدہ بنا دیا ہے کیونکہ نیتن یاہو اپنی سیاست و پارلیمانی شکست کے دہانے پر ہیں اور انہیں اپنی کامیابی کے لئے حماس کو سرنگوں کرنا ایک اہم ہدف کے طور پر نظر آتا ہے ، جس میں کامیابی کے متبادل کے طور پر ملک میں انتخابی کامیابی کی لالچ شامل ہو چکی ہے ۔ حماس اور الفتح ، حکمران جماعتوں کے اندر دھڑے، اور ایک بکھرے ہوئے معاشرے کے اندر لبنانی ریاست و فلسطینی اتھارٹی کا غیر فعال کردار بھی امن کی کوششوں کو پیچیدہ بنا چکا ہے۔ اندرونی تقسیم کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا اور ایک مربوط امن ایجنڈے پر عمل کرنا اہم چیلنج بنی ہوئی ہے۔ جنگ بندی کے لیے مزاحمت کاروں اور اسرائیل پر دبائو ڈالنے کی بین الاقوامی کوششوں کے باوجود، اسے نافذ کرنا اور طویل مدتی امن کو یقینی بنانا ایک مشکل کام ہے۔ تنازع کا حل اسرائیلی اور فلسطینی معاشروں میں داخلی حرکیات کی جامع تفہیم کا متقاضی ہے۔ یہ واضح ہے کہ پائیدار امن معاہدے کے حصول کے لیے پہلے اندرونی خدشات کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے اندر چیلنجوں کے پیچیدہ جال کو تسلیم کرنے اور اس پر آگے بڑھنے کے لئے، عالمی برادری خطے میں دیرپا امن کے لیے بہتر کردار ادا کر سکتی ہے لیکن خطے پر جنگ کے دائروں کی وسعت بڑھتی جا رہی ہے اور امریکہ کی جانب سے عارضی بندر گاہ کے نام پر نیا اڈا بنانے کا عزم ظاہر کر رہا ہے کہ امریکہ انسانی ہمدردی کے نام پر مشرق وسطیٰ میں طویل مدت کے لئے رہنے کا خواہاں ہے کیونکہ یہ امریکہ کی تاریخ رہی ہے وہ جہاں جاتا ہے وہاں سے جلدی واپسی نہیں کرتا ۔
فلسطینیوں کی طرف سے آزادی کی جدوجہد مسلم دنیا کے اندر گہرائی سے گونج رہی ہے اور مختلف اقوام کی حمایت حاصل کرتی جا رہی ہے۔ تاہم، ایک پائیدار امن معاہدے کے حصول کے لیے سیکیورٹی خدشات، انسانی ضروریات اور دونوں طرف کی سیاسی خواہشات سے نمٹنے کے لیے ایک نازک توازن کی ضرورت ہے اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع کو حل کرنے میں ناکامی خانہ جنگیوں کی پیچیدہ نوعیت اور مسلم اکثریتی ممالک اور بین الاقوامی برادری کو اس طرح کے پیچیدہ جغرافیائی سیاسی مناظر کو نیویگیٹ کرنے میں درپیش چیلنجوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ چونکہ رمضان کا مقدس مہینہ تنازعات اور غیر یقینی صورتحال کے درمیان آ رہا ہے، خطے میں پائیدار استحکام کو فروغ دینے کے لیے مذاکرات، سمجھوتہ، اور امن کے لیے حقیقی عزم کی نئی کوششیں ضروری ہیں۔ حماس جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی فوجیوں کے انخلا کی خواہاں ہے جبکہ اسرائیل کا مقصد حماس کی مکمل شکست ہے۔ اسرائیل کو غزہ سے راکٹ حملوں کا خدشہ ہے جبکہ حماس کو اسرائیلی در اندازی کا خدشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امن و جنگ بندی کے یہ مقاصد آسانی سے نہیں طے نہیں ہو رہے، کیونکہ یہ خطے کے مستقبل کے لیے بنیادی طور پر مختلف تصورات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مصر، امریکہ اور قطر اس تنازع میں ثالثی کی رسمی کوشش کر رہے ہیں، لیکن حالات کی پیچیدگیوں اور اس میں شامل دیگر ممالک کے مفادات کی وجہ سے ان کا اثر و رسوخ محدود ہو سکتا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو ویٹو کرنے پر امریکہ کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، جسے دیرپا امن قائم کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے اندر داخلی مسائل، جیسے ریاستی ادارے کی تعمیر، سیکولر۔ مذہبی تقسیم، اتحادی سیاست، اور تعلیمی اصلاحات، تنازعات کے پرامن حل کے حصول کے لیے اہم مضمرات رکھتے ہیں۔ یہ اندرونی چیلنجز وسیع تر تنازعات کو دھندلا کر سکتے ہیں اور اسے حل کرنے کی بین الاقوامی کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔ مسلم اکثریتی ممالک اور عالمی برادری کی مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی لڑنے میں ناکامی بہت سے عوامل کی وجہ سے ہے، جن کا ادراک کئے بغیر تنازع کا مستقل حل نکلنا ممکن نظر نہیں آرہا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں