’’تنخواہ نہیں لوں گا‘‘ سے مہنگے پروٹوکول تک

پاکستان کی معاشی حالت کیلئے کسی لمبے چوڑے تبصرے یا کوئی بڑے اعداد و شمار دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، 2018ء کے بعد سے معیشت کی تنزلی کا جو سفر شروع ہوا تھا اس نے اب کافی رفتار پکڑ لی ہے ، پاکستان کے دورے پر آئے آئی ایم ایف کے ساتھ اگر قرض پروگرام کے مذاکرات کسی کنارے پر نہ لگے تو ممکن ہے کہ پاکستان کی طوفان میں گھری معیشت کی کشتی کو کوئی کنارہ نہیں ملے گا اور پھر ایک ایسا معاشی بحران آئے گا جو سب کچھ لپیٹ سکتا ہے۔

انتخابات ہو گئے، نئی وفاقی حکومت اور چارروں صوبوں میں حکومتیں تشکیل پا چکی ہیں، وزراء نے حلف اٹھا لئے، وزرائے اعلیٰ کی جانب سے بہتری اور ملک کی تقدیر بدلنے کے اعلانات اٰنا شروع ہ گئے ہیں،کوئی تنخواہ نہ لینے کا کہہ کر پوائنٹ سکوررنگ کر رہا ہے اور کوئی دو دو دفتر رکھنے کو فضول خرچی سمجھ رہا ہے، صدر مملکت کے عہدے پر بیٹھا شخص اس ملک میں تقریباً 846550 روپے ماہانہ لیتا ہے، صدر مملکت آصف علی زرداری نے آتے ہی اعلان کیا کہ وہ معاشی حالات کے پیش نظر ملکی خزانے پر بوجھ نہیں ڈالیں گے اور تنخواہ نہیں لینگے، بہت اچھا فیصلہ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے مگر سوشل میڈیا پر ان کے پروٹوکول کا ایک ویڈیو کلپ وائرل ہے جس میں موصوف ہیلی کاپٹر سے اس وقت تک اتر کر اپنی گاڑی میں نہیں جاتے جب تک ہیلی کاپٹر اور گاڑی کے درمیان ریڈ کارپٹ نہیں بچھا دیا جاتا، ہیلی کاپٹر پر سفر اور پھر صدر مملکت کا پروٹوکول اتنا مہنگا ہے جس کا تصور کرنا ہی مشکل ہے، کیا ہی اچھا ہوتا صدر مملکت تنخواہ لینے سے انکار کے ساتھ ساتھ سرکاری پروٹوکول بھی لینے سے انکار کردیتے تھے۔

کچھ اسی طرح وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی عوام کو ریلیف دے رہی ہیں، ایک جانب ان کا منہ یہ کہتے نہیں تکتا کہ غریب کیلئے سب کچھ قربان کردینگے مگر جب باری آئی گاڑی کے ٹائر بدلنے کی تو پتہ چلا کہ یہ ٹائر کروڑوں میں ڈالے جائیں گے ، اس بات کا دفاع کرنے کیلئے عظمیٰ بخاری بھی آگئیں اور بڑے بھونڈے انداز میں دفاع کرکے چلتی بنیں، یہ کیسی غریب پرستی ہے کہ ایک جانب کوئی بھی حکومتی عہدیدار اپنا پروٹوکول چھوڑنے کو تیار نہیں مگر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے بڑے بڑے غریب پرور بیانات دیئے جا رہے ہیں، ان لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ اب یہ 90 ء کی دہائی نہیں نہ ہی یہ اس دور کی سیاست ہے یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر چیز عوام کے سامنے ہے۔

ایک جانب عوام کا یہ حال ہے کہ جو پہلے تین وقت کی روٹی کھاتے تھے ، اب دو وقت کی کھاتے ہیں، جو دو وقت کی کھاتے تھے ایک وقت تک آچکے ہیں اور ایک وقت والوں کا حال نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے۔ معیشت کی حالت بہتر کرنے کیلئے ہم کبھی دوست ممالک اور کبھی آئی ایم ایف کے در پر ماتھے ٹکتے ہیں، کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ تمام سرکاری افسران کی مراعات کو ختم کردیا جائے، مفت بجلی ، مفت پیٹرول، مفت ڈیزل اور دیگر لوازمات کو ختم کردیا جائے، وزیراعظم سے لیکر وزرائے اعلیٰ، وزراء، سرکاری افسران سب کے پروٹوکولز ختم کردیئے جائیں، اگر آپ پانچ سال میں اور کچھ نہیں کرسکتے تو یہ کر کے دیکھیں یقین کریں آپ کو فرق خود نظر آجائے گا اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر خدارا غریب پرستی کے بلند و بانگ دعوے بھی مت کریں کیونکہ معاشی حالات ایسے ٹھیک نہیں ہونگے جیسے آپ کرنا چاہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں