ایک اور نتیجہ آگیا۔بچے پاس والدین فیل 

ہم نے تعلیم اس لئے بھی حاصل کی کیونکہ ہم اس زمانے میں بچے تھے بچوں کو اس طرح ہی قابوکرلیا جاتا تھا بلکہ ہے بچے تو صرف والدین کی امیدوں پر پورااترنے کے لئے کوشاں ہوتے ہیں اوراس ساری جدوجہد کے دور میں والدین انہیں یہ شعر سناتے رہتے ہیں

کھیلوگے کودوگے تو ہوگے خراب

پڑھوگے لکھو گے تو بنو گے نواب

مگر یہاں تو الٹا ہی چل رہاہے خراب کوئی اور ہو رہا ہے اور’’ نواب‘‘ کوئی اور بنا بیٹھا ہے اسی لئے تو ہمیں اس بات پر زرا بھی فخر نہیں کہ ہم بھی کبھی سکول میںپڑھتے تھے کیونکہ ہمارے ملک میں سکول جائے بغیر اور امتحان دیئے بغیرڈگریاں مل جایا کرتی ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ جعلی ڈگری والا کسی کا بھی حق مار کر سرکاری عہدہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔ سرکاری بھی اور عوامی و سیاسی عہدے بھی اس کی راہ میں سرتسلیم خم کھڑے ہوتے ہیں۔  چھوڑیں جی جس ملک میں انصاف بک رہا ہو وہاں ڈگریاں کی خرید و فروخت کوئی اچھنبے یا تعجب کی بات نہیںہونی چاہیئے ۔

ہم بات کررہے تھے اپنے سکول جانے کی ‘ سال بھر سکول میں ایک ہی کلاس میں پڑھنے کے بعد ہر سال نتیجہ بھی نکلاکرتا تھااور تقریباًا سی مہینے میں ہمارے بھی سالانہ امتحانات کے بعد نتیجے نکلتے تھے۔سارے سکول کا رزلٹ ایک ہی دن ہوا کرتا تھا اور پورے کا پورا سکول پھولوں کی مہک سے معطر ہوجاتا اور پاس ہونے والے بچوں اور ان کے اساتذہ پر پھولوں کی اتنی پتیاں نچھاور کی جاتیں کہ سکول کسی نئی نویلی دلھن کا سیج لگتا تھا۔ چونکہ یہ بہار کا موسم ہوتا ہے اس پر یہ سماں بندھا ہوتو پھر پاس ہونے کی خوشیوں کے ساتھ ساتھ کئی اور خوشیاں بھی مل جاتیں تھیںاور خوشی سے جھومتے ہوئے ہم اپنے گھر والوں کو اپنے پاس ہونے کی خوش خبری سناتے تھے ہاں کبھی کبھار کلاس میں پوزیشن لینے کی بھی نوبت آہی جاتی تھی۔یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ہم صرف پھولوں کے شہر پشاور کی بات نہیں کررہے بلکہ پورے ملک میں اس موسم میں پھول کھلتے ہیں لہٰذہ پھولوں کو نچھاور کرنے کا رواج بھی سارے وطن میں آج تک رائج ہے۔

ہمارے زمانے میں ملک میں بجلی وافر مقدار میں تھی لوڈشیڈنگ تب بھی ہوتی تھی مگر آٹے میں نمک کے برابر۔ آج کل تو نمک میں آٹا ڈالا جارہاہے بجلی آتی کم ہے اور جاتی زیادہ ہے۔ پہلے ہم بجلی جانے کے اوقات یاد کرلیا کرتے تھے کہ سارے دن ورات میں فلاں وقت سے فلاں وقت کے لئے بجلی نہیں ہوگی۔وہ لوڈشیڈنگ بھی صرف گھنٹہ بھر کے لئے ۔ اب بجلی آنے کے اوقات ازبر ہوچکے ہیںکیونکہ وہ صرف دو یا تین گھنٹے ہی ہیں۔ہر سال لوڈشیڈنگ ہوتی ہے مگراب تو ہر سال ملک عزیز کے ہر حصہ کے ہر شہر ہر قصہ اور ہر گائوںمیںاتنی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے کہ بچوں کی کوئی پوزیشن نہ لینے پر کوئی لعن طعن کرنے کی ہمت ہی نہ ہوسکی بلکہ صرف پاس ہونے پر بھی مبارکباد کے ساتھ ساتھ داد کے مستحق ہیں۔  پوزیشنیں لینے والوں کے ساتھ بھی ہمارے ملک میں کچھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا مگر اس معاملہ میںپنجاب سارے پاکستان سے زراہٹ کے ہے ۔پنجاب میں حکومت چاہے کسی کی بھی ہو صوبہ کے غریب بچے کی تعلیم کے لئے بڑی توجہ دی جاتی رہی ہے۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی’’ پڑھا لکھا پنجاب ‘‘بھی ہے۔پڑھا لکھا پنجاب کاچرچہ سن کر پنجاب بھر کے ساتھ ساتھ ملک کے عوام نے اپنے بچوں کو سکولوں کو بھیجوانا شروع کر دیا۔ ہر غریب شخص نے اپنے پیٹ کاٹ کر بچوں کے سکول کی کتابیں ‘کاپیاں ‘پینسلیں اور سکول بیگ خریدے گئے۔ لیکن اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی مشکلات ختم نہ ہوئےں۔ہرماہ سکول اور وین کی فیسیں الگ سے دینی پڑتی ہیں۔

اب پھر بچے تو پاس ہوگئے ہیں اور خیر سے اگلی کلاس میں بھی جارہے ہیںیوں بچوں کا امتحان ختم ہوتا ہے لیکن بے چارے والدیں کا کڑا امتحان اب شروع ہوجاتا ہے۔ کل تک ہم والدین انہیں باربار کہتے تھے کہ بیٹا پڑھوں یہ چند دن محنت کرنی ہے پھر ساری عمر بیٹھ کر کھانا ہے کھیلنا ہے اور گھومنا ہے لیکن اندر سے ہم سب والدین میسنے ہوتے ہیںکیونکہ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ امتحان کبھی ختم نہیں ہونے والا۔ کل ہم بھی بچے تھے اور سکول و کالج کے امتحانات سے پاس ہوکر حقیقی زندگی کے امتحانوں سے پالا پڑگیا ہے کہ وہ پپچھلے سارے امتحان بھول گئے ہیں مہنگائی کے اس دور میںجہاں آٹا چینی دال چاول کے بھائو آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ ایک طرف پیٹرول کی قیمتیں بڑھیں ہیں کہ جن کی وجہ سے ضروری استعمال کی ہر چیز جیسے خود بخود مہنگی ہوگئی ہے پیاز ٹماٹر سے لے کر دالوں تک یا یوں کہاجائے کہ سوائے انسانی جان کے سب کچھ مہنگا ہوگیا ہے۔سکول و کالج میں حساب پڑھاتھا عملی زندگی میں وہ کام نہیں کررہا ۔ غربت کی لائن سے کہیں بہت نیچے زندگی گزارنے والوں پر ایک اور بم گرنے والا ہے ۔آئی ایم ایف نے اب باقائدہ سے ڈرائون حملے کرنے شروع کردیے ہیں اور وہ بھی ٹارگٹڈ کہ صرف غریب ہی ان کا ٹارگٹ ہیں اور یہ میزائل صرف اور صرف غریب کا گھر دیکھ کر ہی گرتاہے حالانکہ امیروں کے گھر بڑے بھی ہیں اور قریب بھی پڑتے ہیں لیکن مجال ہے کہ وہ انہیں نظر آجائے اور غریب پاکستانی کا جھونپڑا تو ایسے ڈھونڈنکالتا ہے جیسے یہ قرضہ اسی گھر کی تعمیر و ترقی پر لگا ہو۔ عالمی مالیاتی ادارہ نے شہباز حکومت کے ساتھ معاہدہ کرلیا ہے اور گاہے بگاہے  ’’بجلی گرانے ‘‘کے لئے تیاریاں عروج پرہیں۔ان سب مہنگائیوں کے بیچوں بیچ بیچارے والدین پسے جارہے ہیں اور مذید پسنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کررہے ہیں۔اب پھر سے کتابیں لینے کا موقع آیا ہے کتابوں کی قیمتیں بھی ظاہری سی بات ہے کہ باقی سب اشیائ صرف کی طرح بڑھ گئی ہیں۔

ہماری حکومتیں ‘ان میں وفاقی اور صوبائی دونوں شامل ہیں‘ اس معاملہ سے ایسے پہلوتہی کررہے ہیں جیسے یہ ان کا مسئلہ تو ہے ہی نہیں۔ جی ہاں ہم مانتے ہیں کہ مذکورہ حکومتیں غریب آدمی کی باقی کس چیز کا خیال کررہی ہے۔بجلی کی کمی ہے تو ان کی بلا سے۔آٹا چینی دال چاول عام آدمی کو میسر نہیں تو ان کو احساس کہاں ۔نہ جانے یہ ہماری سیاسی رہنمائ ایوانوں اور اقتدار کی کرسیوں میں پہنچ کر عوام کو کیوں بھول جاتے ہیں حالانکہ انہیں تاریخ کا اچھی طرح سے علم ہے اور اگر تاریخ پڑھنے کے لئے ان کے پاس وقت نہیں تو ابھی ماضی قریب کی بات دیکھ لیتے ہیں کہ پچھلے ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات میں عوام کو بھول جانے والوں کے ساتھ ووٹ کی پرچی والوں نے کتنا عبرت ناک سلوک کیا ہے‘  شیخ رشید احمد کی مثال دی جاسکتی ہے ایک زمانہ میں یہ صاحب سارے راولپندی پر راج کرتا تھا ایک قومی اسمبلی کی بجائے دودو قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہوتاتھا بلکہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتا ہے اور مخالف امیدوارکی ضمانت ضبط کروانے کا شرف بھی حاصل کرتاتھا لیکن عوام سے دوری اور اپنے ووٹر کے جزبات سے کھیلنے کے بدلے آج وہ قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔ہماری اپنی ساری کی ساری حکومتوں سے دل کی گہرائیوں سے ہمدردانہ درخواست ہے کہ خدارا والدین کے ساتھ تعاون کریں اور بچوں کے لئے کتابیں کاپیاں وغیرہ خریدنے میں خاطر خواہ امداد کریں اوراگر ہوسکے تو باہر سے ملنے والی امداد کو حقیقی حقداروں کو پہنچا کر اپنا اور قوم کے بچوں کا مستقبل روشن کرنے میں مدد دیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں