پرائیویٹ سکول مافیا کی من مانیاں عروج پر……. وسیم اشرف عباسی

حکومت پنجاب کی طرف سے ہر سال بجٹ میں جہاں کم ازکم تنخواہ میں اضافہ کیا جاتا ہے وہیں ہر انڈسٹری اور پروفیشن کے حوالے سے بھی سکلڈ ملازمین کی تنخواہ کا بھی تعین کیا جاتا ہے لیکن انڈسٹری اور فیکٹریوں میں حکومتوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کم ازکم تنخواہ میں کسی حد تک اضافہ کر دیا جاتا ہے جبکہ راولپنڈی شہر میں اس پر نہ ہی پرائیویٹ سیکٹر میں مکمل طور پر عمل درآمد ہوتا ہے اور سکلڈ ملازمین کے حوالے سے تو بالکل بھی عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔اس سال بجٹ میں پنجاب حکومت کی طرف سے 32 ہزار تنخواہ مقرر کی گئی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ پچھلے 2021 اور 2022 کے بجٹ میں کم ازکم جوتنخواہ مقرر کی گئی ہے وہ بھی نہیں دی جاتی ۔حالیہ دنوں پرائیوٹ سکولوں کا سروے کیا گیا جس میں یہ بات علم میں آئی کہ راولپنڈی میں و اقع ریڈیئنٹ سیکنڈری سکول اقبال ٹاؤن میں زیر تعلیم بچوں سے فیس کی مد میں ماہانہ بنیادوں پر 7 سے 8 ہزار تک وصول کئے جاتے ہیں لیکن اساتذہ کو ماہانہ تنخواہ کم ازکم ویجز سے بھی کم ادا کی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف ریڈیئنٹ سیکنڈری سکول اقبال ٹاؤن کی انتظامیہ اپنے تعلیمی معیار اور زیادہ فیسیں وصول کرنے کے حوالے سے سوال پر صدیق پبلک سکول سے اپنا موزانہ کرتی ہے جبکہ صدیق پبلک سکول اساتذہ کو ماہانہ تنخواہوں کی مد میں سکلڈ ملازمین سے بھی اضافی تنخواہ ادا کررہا ہے. اس طرح پنجاب گروپ آف کالجز کے الائیڈ سکولوں میں بھی اساتذہ کی کم ازکم تنخواہوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ کری روڈ برانچ میں تو ٹیچر کو 15 سے 18 ہزار روپے تنخواہ دی جارہی ہے جبکہ فیسوں کی مد میں ہزاروں روپے بچوں سے لئے جاتے ہیں ۔اس طرح سپیرئیر گروپ کے کالج اور سکولوں میں بھی اساتذہ کو مکمل معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے ۔برٹش سکول کے نام پر دو درجن سے زائد برانچوں میں ٹیچر زکو تنخواہ 12 سے 15 ہزار ماہانہ دی جارہی ہے اس طرح راولپنڈی کے سب سے پوش ایریا اے بلاک میں 1975 سے قائم اینگلو عریبک سکول میں بھی ٹیچرز کے کم ازکم ویجز پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا جبکہ سیکورٹی گارڈ ز کو آج بھی 15 سے16 ہزار ماہانہ تنخواہ دی جارہی ہے ۔حالانکہ اساتذہ قوم کی نئی نسل کی سرمایہ کاری کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ بلاشبہ استاد کی مثال ایک شمع کی طرح ہے جو خود تو پگھل جاتی ہے لیکن دوسروں کو روشنی دیتی ہے۔اساتذہ کسی بھی قوم و ملت کا وہ عظیم سرمایہ ہیں جو ہر مشکل، ہر آفت، اور کٹھن سے کٹھن گھڑی میں نسل نو کو نکھارنے اور انہیں صیقل کرنے میں اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیتے ہیں، ملک و ملت کا روشن مستقبل انہی کے ہاتھوں پروان چڑھتا ہے اور ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے۔تاریخ انسانی کے مختلف دور میں بہت سے اساتذہ فلاسفہ اور معاشرہ کی اصلاح کرنے والے پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے آگے چل کر علم حاصل کرنے والوں کی کھیپ کی کھیپ تیار کیں۔ لیکن پاکستان میں پرائیویٹ سکول مافیاکی وجہ سےاس مہنگائی میں ایم اےپاس اور گریجویشن خواتین ٹیچرزکا کوئی پرسان حال نہیں۔ پنجاب حکومت کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے باوجود لیبر اتھارٹی پرائیویٹ تعلیمی اداروں ، ہوٹلز سمیت دیگر اداروں میں کم از کم تنخواہ پر عمل درآمد کرنے میں جہاں ناکام ہے وہی سکلڈ(ہنرمند) ملازمین کیلئے تعین کردہ کم ازکم تنخواہ کا تو نام تک نہیں لیا جاتا ۔ لیبر ڈائریکٹر ویلفیئر راولپنڈی کے لیبر آفیسر اور انسپکٹر کو باقدہ طور پر ایک مکمل ٹیم کے ساتھ مختلف زون میں تقسیم کر رکھا ہے لیکن وہ عمل درآمد کرانے میں ناکام ہیں وہیں ملازمین بھی انصاف کیلئے سرگرداں ہیں. پاکستان کا 1936 سے قائم کردہ قانون جس پر فوری طور عمل درآمد ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن ملز ،سکول ،فیکٹری ،ڈسٹری بیوٹر ،ہوٹل ،کیش اینڈ کیری ،دکان مالکان کے آگے لیبر اتھارٹی راولپنڈی حکومت کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن پر عمل درآمد کرانے میں جہاں ناکام نظر آتی ہے وہیں مالکان مافیا حکومتی رٹ کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکاری نظر آتی ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں