کیا ووٹ کو عزت ایسے دی جاتی ہے؟

ہماری سیاست کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان ووٹ کو عزت دینے کے نعرے تو لگاتے ہیں مگر جب ووٹ کو عزت دینے کا وقت آتا ہے تو اسے نہ صرف بے عزت کرکے رکھ دیتے ہیں بلکہ پائوں کے نیچنے مسلنے سے بھی گریز نہیں کرتے، میں آپ سے یہ نہیں کہتی کہ آپ تاریخ کے ڈھیروں صفحات پلٹیں بلکہ صرف آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالیں اور اس کے بعد ہونے والے ہیر پھیر کو بغور دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمارے ملک میں ووٹ کو کیسے بے عزت کیا جاتا ہے، ایک جماعت جس کے سربراہ کو قید کردیا گیا، جس کے انتخابی نشان کو چھین لیا گیا، جس کے امیدواروں کو ڈرایا دھمکایا گیا، جس کے امیدواروں کو انتخابی پلیئنگ فیلڈ تک نہ دی گئی اس جماعت کے آزاد امیدواروں نے کراچی کے ساحل سے لیکر شمالی علاقوں جات کی چوٹیوں تک کامیابی حاصل کرکے ثابت کیا کہ عوام کس کے ساتھ ہیں، یہ کوئی زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں، جس نے بھی کامیابی حاصل کی جس کے بھی حق میں عوام نے فیصلہ دیا اسے قبول کیا جائے، اس پر سرتسلیم خم کیا جائے یہی اصل جمہوریت اور یہی ووٹ کی عزت ہے مگر یہ میری خواہش ہوسکتی ہے ایسا ہوا نہیں، تمام میڈیا بشمول سوشل میڈیا پر لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ رات کے اندھیرے میں نتائج کے معاملے میں اندھیری نگری ڈالی گئی، جیتے ہوئے ہارے گئے اور ہارتے ہارتے کئی جیت گئے، کیا ایسا کرکے ہم نے جمہوریت کی کوئی عزت کی ہے؟ یقین سب کا جواب نفی میں ہوگا، اس تمام ہیرا پھیری کے باوجود اس وقت تک کے نتائج کے مطابق بھی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سب سے آگے ہیں، اس کے باوجود مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی جانب سے وکٹری سپیج میں یہ کہناکہ ہم سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے، ساتھ ہی ان کی جانب سے حکومت سازی کے عمل کو بھی شروع کرنے کا اعلان کردیا گیا، پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سے بھی رات گئے ملاقات کرلی، ایم کیو ام سے بھی رابطے شروع ہو گئے ہیں، یہ سب ان کی جانب سے ہو رہا ہے جن کا نعرہ تھا ووٹ کو عزت دو، کیا یہ عزت دے رہے ہیں آپ ووٹ کو، جن کو ووٹ ملا جس پر عوام نے اعتماد کیا ان کے حق پر آپ ڈاکا ڈالنا چاہتے ہیں کیا یہ جمہوریت ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نواز شریف اپنے خطاب میں کہتے ہیں کہ ہم توقعات کے مطاق نتائج حاصل نہیں کرسکے، اتنی سیٹیں نہیں لے سکے جتنی حکومت سازی کیلئے ضروری ہوتی ہیں، تاہم اب بھی وقت ہے کہ تمام سیاستدان ملکی مفاد اور عوامی فلاح کے لیے ایک ساتھ چلیں تاکہ ملک بحران سے باہر نکلے ، لوگ خوشحال ہوں ہم سب کو ملکر کر چلنا ہوگا مگر یہ سب کچھ کہنے کیلئے دل بڑا کرنا پڑتا ہےاور ایسا ظرف ہمارے کسی سیاستدان کے پاس نہیں ، اگر اب بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا گیا، حالات کی نزاکت کو
نہ سمجھا گیا، ووٹ اور جمہوریت کی عزت نہ کی گئی تو پھر آنے والے وقت میں جو کچھ بھی ہوگا اس کے ذمہ دار سیاست دان ہی ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں