چیئرمین پی سی بی کے متنازعہ فیصلے

پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی آمد سے یہ امید ہو چلی تھی کہ کرکٹ بورڈ کے معاملات کا رخ صحیح سمت متعین ہو جائے گا مگر ان کی جانب سے اب تک کچھ ایسے فیصلے کئئے گئے ہیںؒ جن کو دیکھتے ہوئے بہتری کی امید کم ہی دکھائی دیتی ہے، پہلی بات یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین کوئی سابق کرکٹر نہیں ہوسکتا جو کھیل اور کھلاڑیوں کو سمجھتا ہے، آخر ایسی کونسی مجبوری ہے کہ ہر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ چیئرمین کرکٹ بورڈ بھی تبدیل ہو جاتا ہے اور ہر آنے والی حکومت اپنی پسند کا چیئرمین کرکٹ بورڈ لگانا اپنا حق سمجھتی ہے، جب تک یہ سلسلہ نہیں رکھے گا بورڈ اور کھلاڑیوں میں بہتری کی امید رکھنا فضول ہی ہے۔

اب آتے ہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین محسن نقوی کی جانب سے اب تک کئے گئے فیصلوں کی جانب یہاں ہم زیادہ فیصلوں پر بات نہیں کرینگے ان کے دو ہی فیصلہ ایسے ہیں جن سے اندازہ ہو چلا ہے کہ معاملات کا رخ ٹھیک نہیں رہے گا، پہلا فیصلہ ان کا یہ تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی بنائی جائے اس سلیکن کمیٹی میں بڑے غور کے ساتھ جن کو شامل کیا گیا ان میں محمد یوسف ، وہاب ریاض ، عبدالرزاق، اسدشفیق،  ہیڈ کوچ ، کپتان اور ایک اینالسٹ شامل ہوگا، اس اعلان کے دو دن بعد محسن نقوی کی نگران کابینہ کے وزیر بلال افضل کو سلیکشن کمیٹی کا حصہ بنا لیا گیا، پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس سلیکشن کمیٹی کا کوئی بھی سربراہ نہیں ہوگا، یہ بڑا عجیب فیصلہ ہے ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے اور اس کی سربراہی کسی کو بھی نہیں دی جاتی اگر ایسا ہے تو کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی بغیر سربراہ کے ہی وزیراعظم ہائوس سے چلایا جائے؟

اس حیران کن فیصلے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے صرف ایک سیریز کے بعد فاسٹ بائولر شاہین شاہ آفریدی کو وائٹ بال (ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ) ٹیم کی قیادت سے ہٹاتے ہوئے دوبارہ بابر اعظم کو ٹیم کی قیادت سونپ دی ہے، اس فیصلے کے آنے والے دنوں میں منفی اثرات نظر آئیں گے کیونکہ شاہین شاہ آفریدی اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مجھے پورا موقع دیئے بغیر قیادت سے ہٹانا سمجھ سے بالا تر ہے دوسری جانب ان کے سسر سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے بھی اس فیصلے پر حیرانگی کا اظہار کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر شاہین شاہ آفریدی کو ہٹانا ہی تھا تو قیادت کیلئے محمد رضوان بہترین تھے ، اسی طرح جب بابر اعظم کو ٹیم کی قیادت دوبارہ دینے کی بات شروع ہوئی تو ان کا مطالبہ تھا کہ مجھے تینوں فارمیٹ میں قیادت سونپی جائے مگر کیونکہ شان مسعود بھی ایک بڑی سفارش کے حامل کھلاڑی ہیں لہٰذا ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا جاسکا اور اس کے بغیر ہی وہ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کی قیادت لینے پر رضا مند ہو گئے، یہ دو ایسے فیصلے ہیں ان کے مستقبل میں مثبت اثرات کم ہی نظر آتے ہیں، سلیکٹرز کا جب کوئی سربراہ نہیں تو ٹیم کا انتخاب کیسے ممکن ہو سکے گا؟ ہر کوئی اپنی مرضی کرنے کی کوشش کرے گا اسی طرح بابر کو دوبارہ قیادت سونپنے سے ٹیم گروپنگ کا شکار ہو جائے گی اور اس سے ٹیم کی کارکردگی متاثر ہو گی اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ محمد عامر اور عماد وسیم جیسے سینئرز کی واپسی سے بابر اعظم کو جو مشکلات پیش آئیں گی وہ ایک الگ کہانی ہے جسے آنے والے وقت میں سنایا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں