رفاقت راجہ ،،،،،دلوں کا راجہ ——-تحریر شفیق ملک

لگ بھگ بائیس سال ہو گئے اجلے صفحے سیاہ اور کالے کرتے ،اچھا برا جو بھی جس موضوع پر جب چاہا لکھ دیا مگرایک دو بار کی طرح کبھی لفظوں کا یوں کال نہیں پڑا جیسے آج،سمجھ ہی نہیں آ رہی کیا لکھوں کہاں سے شروع کروں ،کبھی کبھی کوئی ایک شخص پوری انجمن پر بھاری ہوتا ہے اور اکثر اس کی موجودگی میں احساس نہیں ہوتا مگر اس کے منظر سے ہٹنے سے لگتا ہے کہ وقت کا پہیہ تھم سا گیا ہے ،راجہ رفاقت بلاشبہ دلوں کا راجہ تھا جس نے بے پناہ انسانوں کے دلوں پر اپنی خوش اخلاق اور ملنسار طبیعت کی وجہ سے راج کیا ،سمجھ نہیں ا رہی کہ لیاقت بھائی سے افسوس کروں یا نبیلہ بھابی سے یا انہیں کہوں کہ مجھ سے افسوس کریں کہ میں بہت زیادہ غمزدہ ،دکھ اور کرب میں مبتلا ہوں ،وہ میرا دوست تھا ہر شخص کو یہی گمان ہوتا تھااکہ یہ شخص میرا ہی دوست ہے کمال کا انسان،ہر کسی کی عزت کرنے والا ہر کسی کو عزت دینے والا ہر کسی کا لحاظ کرنے والا ،نہ کوئی اکڑ نہ غرور جب بلایا فوراََجواب آیا بس ملک صاحب آیا جدھر جانے کا کہا ساتھ تیار،اکثر کال کر کے مجھے کہتا دفتر ہو؟ میں آیا ،یہی اس کا طرز تکلم تھا اوریہی طرز تخاطب ،ہمارے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ بے وفا ہمیں یو ں اور اتنی جلدی چھوڑ جائے گا مگر اس کا بھی کیا قصور کہ اس کی ساتھ اسی کی زندگی نے ہی وفا نہ کی پتہ نہیں وہ بے درد ہمیں کیسی سزا دے گیا،کیا کمال کا انسان تھا ایماندار حساس اور یاروں کا یار،میں نے اور اس نے مل کر تقریبا ایک کروڑ روپے کے چھوٹے بڑے پراجیکٹ مکمل کیے کہ اس کا کاروبار زندگانی ٹھیکداری اور کنسٹرکشن تھا،ہم نے متعدد پراجیکٹ مل کر مکمل کیے مگر میں حلفا کہہ سکتا ہوں کہ ایک دن بھی جی ہاں ایک دن بھی ہمارا روپے پیسے کے حساب کتاب پر لڑائی جھگڑا تو دور کی بات نو ک جھونک بھی نہیں ہوئی ہم نے ایک دوسرے کو کبھی یہ تک نہیں کہا کہ نہیں جنا ب آپ غلط کہہ رہے ہیں جو حساب بنا جو اس نے بنایا یا میں نے بس صرف دو لفظ ہو گیا جی ، جی اوکے ہو گیا جی ،دوبارہ چیک کر لیا نے جی کر لیا او کے چلو اگے چلو،ورنہ یہاں دو چار لاکھ کیا دو چار ہزار پر دوست تو دور کی بات سگے بہن بھائی آمنے سامنے آنے کو تیار بیٹھے ہیں ،شوقیہ صحافت بھی کرتا تھا بلکہ نہ صرف صحافت کرتا تھا بلکہ بے پناہ چھوٹے اورنسبتا مالی طور پر کمزور صحافیوں کی مالی اعانت اور بھرپور مدد بھی کرتا تھا ہر وقت پانچ سات بندوں کا جھمگٹھا ساتھ رکھتا اکثر ہم تنگ ہو کر کہتے راجہ صاحب آئو کھانا کھائیے مگر آنڑا آپے راجہ جب ٹیم کے ساتھ ہوتا تو انتہائی خوبصورتی سے ٹال جاتا نہ ان کو ناراض کرتا نہ ہمیں ،وفات سے سترہ اٹھارہ دن قبل مجھے راجہ صاحب نے کال کی اور میرے سلام کا وعلیکم السلام جواب دیتے ہی ساتھ گویا ہوئے دفتر ہو؟میں نے جواب دیا جناب کدے جانڑا سخت گرمی آجائو ایتھے ہی ،چلو میں آنا اور چند منٹ بعد راجہ میرے دفتر میں تھا،تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد مجھے کہا ملک جی کہیں باہر چل کر کھانا کھاتے ہیں ،ہم دفتر سے نکلے اور سیدھے ڈسٹرکٹ کمپلیکس چوہدری عمران قیصر کے پاس جا پہنچے کہ ان کو بھی ساتھ لیتے ہیں وہاں انکے دوست چوہدری صفدر صاحب بیٹھے تھے اور عمران صاحب نے گھر کھانا تیار کرا رکھا تھا اور ہمیں بھی دعوت دی مگر راجہ صاحب بضد تھے کہ کھانا ہم نے باہر کھانا ہے ،اسی موقع پر پریس کلب کی دو ماہ کی بقایا فیس میں نے اور راجہ رفاقت نے عمران قیصر چوہدری کے حوالے کی اور وہاں سے آگے نکل پڑے ،ایک ہوٹل پر بذریعہ ٹیلی فون کھانے کا آرڈر دیا اور تھوڑا آگے تلہ گنگ روڈ پر جہاں میں اپنا ایک نیا گھر بنا رہا ہوں راجہ صاحب نے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی کہ بعد میں کھانا کھاتے ہیں ہم وہاں پہنچے جگہ اور تعمیر دیکھی راجے نے حسب معمول خوشی اور طمانیت کا اظہار کیا اور ساتھ ہی کہنے لگے آپ ایک درخواست ڈی سی صاحب کو دیں تلہ گنگ روڈ سے آپ کے مکان تک کی چالیس فٹ گلی فی الفور بنواتے ہیں ،وہاں سے واپس ہم ہوٹل پر آئے کھانا کھایا اور کھانے کے دوران راجہ صاحب نے اپنے کسی بھائی یا بہنوئی کی بیماری کا ذکر کیا مگر شاید ہوٹل کے مالک سلام کرنے آگئے اور میں دھیان نہ دے سکا ساتھ ہی تھوڑی دیر بعد راجہ نے خوشخبری سنائی کہ میں نے وکالت کا امتحان پاس کر لیا ہے اور باقاعدہ لائسنس بھی لے لیا ہے اور اب آپ کو بھی امتحان دلوانا ہے تیاری کر رکھو، میں نے ازراہ مذاق کہا چھوڑو راجہ جی ہنڑ کے لائسنس بنڑوانڑے ہنڑ کجھ اگو دی فکر کرئیے ( اب کیا لائسنس بنوانے اب آگے کی کچھ فکر کریں)،راجے نے جواب دیا وہ صحیح ہے مگر یہ بڑے کام کی چیز ہے ہم نے بیٹھے بیٹھے وہیں پر دفتر کی پلاننگ کی اور ایک دفعہ پھر نبیلہ بھابی کے دفتر پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایااور آفرین ہے اس خاتون پر بھی کہ اس کا دفتر وکالت کے لیے کم اور صحافت کے لیے زیادہ استعمال ہوتا ہے اور آج تک کبھی رتی برابر مائنڈ نہیں کیا ہماری بہن نے، وہاں سے نکلے تو میں نے اپنے دفتر جو راجہ صاحب کے گھر کے ساتھ واقع ہے میں راجہ صاحب کو اتارا اور اللہ حافظ کہا جاتے جاتے راجہ صاحب نے ایک بار پھر مجھے امتحان کی تیاری کی نصیحت کی اور چلے گئے،میں اس کے بعد زمانے کے شب و روز میں گم ہو گیا اور راجہ صاحب اپنی مصروفیات میں گم ہو گئے،ان کی وفات سے ایک دن قبل مجھے ایک مشترکہ دوست نے ان کی بیماری کے بارے میں بتایا اور مجھے نہ اس کی بات کا یقین ہوا نہ راجے کی بیماری کا میں نے کہا یار ابھی چند دن پہلے میری ملاقات ہو ئی راجہ بیمار وغیرہ کوئی نہیں ویسے اسلام آبا د گیا ہو گا اورا س سے اگلے دن جمعے کی صبح ناشتے کے دوران موبائل اٹھایا واٹس ایپ چیک کرنے کے لیے اور راجہ صاحب کی موت کی خبر پر نظر پڑی جو مجھ پر بجلی بن کر گری ناشتہ جہاں تھا وہیںکا وہیں رہ گیا ایک دو دوستوں کو فورا کال کی اور دل میں دعا کی یا باری تعالی یہ خبر جھوٹ ہو یا کسی نے مذاق کیا ہو غلطی سے چل گئی ہو مگر دوستوں نے تصدیق کر دی ،میرے بیوی بچے حیران و پریشان کہ اچانک ہو کیا کہ میں جہاں تھا وہیں کا ہو کہ رہ گیا ،بوجھل دل کے ساتھ یہ خبر آگے دوستوں کو بتائی ہر ایک کی حالت مجھ جیسی ہی تھی،کیا کمال کا انسان ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ایک بار ہمارے ایک دوست نمامہربان نے میرے ہی خلاف ایک لوکل اخبار میں بے تکی سی خبر لگا دی اور ملبہ راجہ رفاقت پر ڈا ل دیا کہ راجہ صاحب نے لگوائی ہے میں نے راجہ صاحب سے پوچھا راجہ چونکہ سچا اور کھرا انسان تھا عظیم اور خاندانی لوگوں کی طرح گلہ منہ پر اور تعریف بعد میں کرنے کا عادی تھا فورا ہی میدان میں آ گیا اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھا جب تک معاملہ کلیئر نہ کر لیا، وہ کہتا تھا مجھے دشمنوں کی کوئی پروا نہیں بس نفرت ہے ان لوگوں سے جو دوستی کی آڑ میں منافقت کرتے ہیں،و ہ بھریا میلہ چھوڑ کر جاتے جاتے کہہ گیا کہ ،چلتے رہیں گے قافلے یونہی میرے بغیر بھی،،اک ستارہ ٹوٹ جانے سے کبھی فلک تنہا نہیں ہوتا،،،مگر اس کے بہت سے دوست اس کے بنا تنہا ہو گئے اللہ اسے کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ،آمین،وہ راجہ تھا دلوں کا راجہ جو چلا گیا اپنے دوستوں سے یہ کہتے ہوئے کہ،،،،،
شعر کہنا ختم،،،،گنگنانا ختم
تیری محفل میں اب آنا جانا ختم
تیرے پیکر کی ہر اک اد ا-الوداع
تجھ سے باتیں ختم روٹھ جانا ختم

اپنا تبصرہ بھیجیں