ہم پاکستانی ہیں مگر؟ … راجہ فرقان احمد

کئی وقتوں کی بات ہے کہ ایک بادشاہ اپنے عوام کے رویے اور سستی سے پریشان تھا. وہ اپنی عوام کے مسلے حل بھی کرتا لیکن عوام اس سے خوش نہ تھی. عام طور پر رعایا اپنے بادشاہ کو آنکھوں پر بٹھاتی ہیں لیکن یہ رعایا ہمیشہ بادشاہ کی نااہلی، نالائقی، اس کی غلط پالیسیوں اور بادشاہ پر جملے کسنے کے سوا کچھ نہ کرتے. بادشاہ اس رویے کو دیکھ کر انتہائی دل برداشتہ ہو گیا. بادشاہ نے اپنی عوام کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا. بادشاہ کے ذہن میں ایک ترکیب آئی. بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ رات کو بڑا سا پتھر بیچ سڑک پر رکھ آئے. وزیر نے اپنے بادشاہ کی اطاعت کی اور اس کے بتائے ہوئے پلان کے مطابق پتھر راستے میں رکھ دیا. اگلی صبح اس سڑک سے ایک قافلہ گزرا لیکن پتھر ہٹانے کے بجائے بادشاہ کو برا بھلا کہتے دوسری طرف سے گزر گئے. کچھ دیر بعد ایک نوجوانوں کا گروپ بھی گزرا انہوں نے پتھر کو سائیڈ میں کرنے کے بجائے سڑک کے کونے سے گزر گئے اور بادشاہ کی نالائقی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے. اسی طرح کئی قافلے آئے اور گزر گئے لیکن کسی نے جرات نے کی کہ وہ اس پتھر کو سائیڈ میں کریں. یہی سلسلہ دن بھر چلتا رہا. رات کو وزیر کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ بادشاہ آپ سب سے ملنا چاہتا ہے اس لیے آپ سب اس روڈ پر آجائیں. بادشاہ کی آمد کی خبر سن کر سب اس جانب چل پڑے. جب بادشاہ وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پتھر اسی طرح پڑا ہے. بادشاہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ یہ پتھر ہٹایا جائے. جوں ہی اس پتھر کو ہٹایا گیا اس کے نیچے سے ایک بیک ملا. اس بیک کو کھولا گیا تو سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ بیک پیسوں سے بھرا تھا. تب بادشاہ نے اس پورے واقعہ کو بیان کیا کہ جو اس پتھر کو ہٹاتا وہ اس انعام کا حقدار ہوتا. یہ بات سن کر پورا مجمع ایک دوسرے کی طرف شرمندگی سے دیکھنے لگا.
اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب تک ہم خود آگے بڑھ کر اس معاشرے کو بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے ہم ترقی نہیں کر سکتے. جو ذمہ داری عوام پر عائد ہوتی ہے اس کو اپنے حکمرانوں پر ڈالنا سراسر ناانصافی ہے. اپنے حکمرانوں کو کوسنے اور جملے کسنے کے بجائے ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے.
اب ذرا میں پاکستانی عوام کی بات کرتا ہوں جو آئے روز اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوکر سارا ملبہ اپنے حکمرانوں پر ڈالتے ہیں. ہم وہ قوم ہیں جو بیچ سڑک پر گاڑی پارک کرکے دو دو گھنٹے گم ہو جاتے ہیں لیکن جب کوئی دوسرا یہ غلطی کر بیٹھے تو اس کو بھاشن دیتے ہیں. جو کام انسان خود نہ کرے اس پر دوسرے کو بھی عمل کرنے کی نصیحت نہ دے لیکن کیا کہیے اس پاکستانی قوم کا. نو پارکنگ لکھے ہونے کے باوجود ہم گاڑی وہاں پر ہی پارکنگ کرتے ہیں.
پاکستان کے آئین میں درج جو ہماری ذمہ داریاں ہیں اس پر عمل کرنے کے بجائے ہم دور بھاگتے ہیں لیکن جب اپنے حق لینے کی بات کی جائے تو اس قوم کو آئین میں درج بنیادی حقوق، انسانی حقوق بخوبی یاد ہوتے ہیں.
اول تو پاکستان میں یہ کم ہی لکھا نظرآئے گا کہ یہاں پر کوڑا پھینکنا منع ہے لیکن جہاں نظروں سے یہ الفاظ گزرے ہوں گے اسی کے نیچے کوڑے کا ڈھیر پڑا دکھائی دے گا. یہ سب کچھ دیکھ کر ہم اپنے حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں کہ وہ کچھ کرتے نہیں. ٹریفک سگنل کا ہی حال دیکھ لیجئے کہ اگر لال بتی بند بھی ہو جائے تو گاڑی روکنے کے بجائے بھگاتے ہیں. آے روز نوجوان افراد ون ویلنگ کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں لیکن ہماری نظروں میں قصوروارکون؟ پولیس. والدین اپنی اولاد کو سمجھانے کے بجائے پولیس والوں پر الزامات لگاتے ہیں. پولیس کا کام ہے کہ وہ یہ روکے لیکن اس طرح کے واقعات کی اموات کا قصوروار صرف اور صرف وہ والدین ہیں جو اپنے بچوں کو روکتے ٹوکتے نہیں اور نہ سختی کرتے ہیں.
پانی کا ہی مسئلہ لے لیجئے کے آنے والے سالوں میں ماہرین کے مطابق پاکستان میں پانی کا مسئلہ ہوگا. یہ کام حکومت کا ہے کہ وہ اس مسئلے پر خصوصی توجہ دیں مگر عوام کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس مشن میں حکومت کا ساتھ دے. اکثر آپ لوگوں کو یہ دیکھنے کو ملے گا کہ لوگ پانی ضائع کرتے ہیں. پانی کی ٹونٹی کھلی رہتی ہے، گاڑیاں دھونے کے لئے پوری ٹینکی ضائع کرتے ہیں.
جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والا ساتواں ملک ہے. حکومت کی جانب سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے. درخت لگائے جارہے ہیں لیکن کیا ہم نے اس میں کوئی کردار ادا کیا؟ کیا ہم نے کوئی درخت لگائے؟ ہم یہی بات کرتے ہیں کہ گرمیوں کے مہینوں میں اضافہ ہورہا ہے لیکن کیا ہم نے اس مسئلہ پر کبھی کچھ سوچاہے؟ کیا ہم نے اپنا کردار ادا کیا؟
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ جب تک ہم خود معاشرے کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے یہ معاشرہ تبدیل نہیں ہوسکتا. حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دے مگر عوام کو ان تمام مسائل پر حکومت کا ساتھ دینا ہوگا. ہمیں اپنی آئینی ذمہ داری نبھانا ہوگی نہ کہ ذمہ داری سے دور جانا. آج سے ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم اس معاشرے کو بدل کر دکھائیں گے.

اپنا تبصرہ بھیجیں