موسم بہار میں سیاسی پارہ انتہا ئی سطح پر

اکتوبر 1957 میں جب اس وقت کے صدر سکندر مرزا اور وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کے درمیان اختلافات اس حد تک بڑھے کہ انھیں عہدہ چھوڑنا پڑا، تو سکندر مرزا نے آئی آئی چندریگر کو وزارت عظمی کی ذمہ داری دی تھی۔انھوں نے چند جماعتوں کے اراکین کا گٹھ جوڑ کر کے اسی ماہ ایک مخلوط حکومت قائم کر دی۔ وہ وزیر اعظم بنے مگر اس کرسی پر صرف 55 دن ہی بیٹھ سکے۔ ان کے اتحادیوں اور خود صدر کے درمیان اختلافات کے باعث تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ ہوا اور آئی آئی چندریگر کے نے استعفی دے دیا۔اس دور میں پہلی بار ملک کے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی گونج سنائی دی تھی۔ سابق وزیراعظم اسماعیل ابراہیم چند ریگرجو تحریک پاکستان کے بڑے رہنمائوں میں سے ایک تھے لیکن بطور وزیر اعظم انھیں بعض مبصرین پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک ناکام وزیراعظم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دوسری باریکم نومبر1989 کو اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔ جو 12 ووٹوں کی اکثریت سے ناکام ہو گئی۔ اسی طرح 2006 میں مشرف دور کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد بھی ناکام ہو گئی تھی اب پاکستان کی تاریخ میں تیسرا موقع ہے کہ کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہورہی ہے۔یوں تو پاکستان میں بہار میں خوبصورت موسم چل رہا ہے تاہم سیاسی پارہ انتہا ئی سطح پر ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ قومی سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کے ساتھ وفاداریوں کی خرید و فروخت جاری ہے ۔پی ٹی آئی سے ناراض نور عالم خان ،راجہ ریاض، رانا قاسم نوں ،وجہیہ اکرام ،احمد حسن،ریاض مزاری،نواب شیرو سیر،نزاہت پٹھان و دیگر سند ھ ہائوس میں موجود ہیں وزیراعظم عمران خان اور وزرا کی جانب سے سند ھ ہائوس کو ہارس ٹریڈنگ کا مرکز قرار دیا جا رہا ہے گز شتہ روز سند ھ ہائوس میں موجود ارکین اسمبلی کی وضو کر تے اور نماز پڑھتے ویڈیو وائرل کروائی گئی ہے سند ھ ہائوس ذرائع کے مطابق ہائوس میں موجود ارکین کی تعداد 20 بتائی جا رہی ہے ۔قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق حکومتی جماعت پی ٹی آئی کو اتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین میں خود پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین، ایم کیو ایم کے سات، بی اے پی کے پانچ، مسلم لیگ ق کے بھی پانچ اراکین، جی ڈی اے کے تین اور عوامی مسلم لیگ کے ایک رکن حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں دوسری جانب حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد 162 ہے۔ ان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 اراکین، متحدہ مجلس عمل کے پندرہ، بی این پی کے چار جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں اگر اتنی زیادہ تعداد میں منحرف ارکان منظر عام پر آ گئے ہیں تو پی ڈی ایم کو اتحادیوں کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عدم اعتماد کے بعد کی منصوبہ بندی بھی کی جا چکی ہے جس میں اسمبلیاں اپنے مدت پوری کریں گی اور وزیر اعظم مسلم لیگ ن سے ہو گا تاہم سیاست میں کو ئی بات حرف آخر نہیں ہوتی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن کی ساری تدبیریں الٹی ہو جائیں اور عدم اعتماد ناکام ہو جائے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو صورت میں پارلیمانی جماعتیں کسی رکن کوقائد ایوان منتخب کروا سکتے ہیں اور اگر اتفاق رائے حاصل کر نے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو صدر مملکت آئین کے آرٹیکل
58(2) کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر عدم اعتماد کے دوران یاپیشتر حکومت اور اپوزیشن میں تصادم کی صورت میں صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 232کے تحت ملکی سلامتی کے پیش نظر ملک میں ایمرجنسی بھی نافذ کر سکتے ہیں موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھا جائے تو اپوزیشن اور حکمران جماعت میں تصادم کا خدشہ واضح نظر آ رہا ہے اپوزیشن اور حکمران جماعت کی جانب سے بھی ڈی چوک میں لاکھوں کی تعداد میں کارکنان کو جمع کر نے کے اعلانات کیے جا چکے ہیں ایسے میں عدم اعتماد سے قبل بھی سیاسی صورتحال میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں