ڈاکٹر سید شمس!!بیما روں کے لیے اللہ کا انعام

ڈاکٹر سید شمس!!بیما روں کے لیے اللہ کا انعام ،ڈاکٹری ایک مقدس پیشہ ہے یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس میں اگر طبی ماہرین اپنی ذمہ داریوں پر درست عمل کریں تو یہ پیشہ عبادت بن جاتا ہے اگر انسان اپنی شرعی اور انسانی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے پیشے پر عمل کرے تو یہ ایک عظیم عبادت ہے البتہ ڈاکٹروں اور نرسوں کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں اگر ڈاکٹر اور نرس اللہ کے لئے اپنے مریضوں کا معالجہ کریں تو ان کا یہ کام عبادت ہے بلکہ یوں کہوں کہ عظیم عبادتوں میں سے ایک ہے تو غلط نہ ہو گاڈاکٹر یا طبیب کو مسیحا اس لیے کہا جاتا ہے کہ اپنے مریض سے اس کا حسنِ سلوک اور بھرپور توجہ کے مطابق علاج ایک طرف مریض کو روحانی طور پر آسودہ کرتا ہے، تو دوسری جانب اسے جسمانی بیماریوں سے چھٹکارے کا موجب ٹھہراتا ہے۔طب ایک مشکل پیشہ ہے ، لیکن جب ڈاکٹر کسی بیمار فرد کو بہتر محسوس کرنے میں مدد دیتے ہیں تو وہ سب کچھ بھول جاتا ہے اور وہ آپ کو ایک خوبصورت مسکراہٹ دیتا ہے ڈاکٹر سینکڑوں لوگوں کی زندگیاں بچانے ، دوسروں کی زندگیاں آسان بنانے اور ہزاروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے خدا کا آلہ ہیں۔ہر ڈاکٹر اپنے مریضوں کے لئے اپنی خدمات کو بہتر طریقے سے پیش کرنے کا علم ، ہنر اور صبر نہیں رکھتا ۔اسلام آباد پولی کلینک اسپتال میں ایسے ہی ایک مثالی ڈاکٹر سید شمس ہیں جن کے حسن اخلاق اور اپنائیت سے مریض زندگی کی نئی کرن محسوس کرتے ہیں ڈاکٹر سید شمس اور ان کے سٹاف کو دیکھ کر ایک مشہور واقعہ یاد آ گیا ۔کسی گائوں سے ایک بزرگ کا گزر ہوا تو وہ بزرگ اپنے چند مریدوں کے ساتھ آرام کی نیت سے رک گئے صبح سے شام ہو گئی گائوں کے کسی رہائشی نے مسافروں سے کھانے پینے کا نہ پوچھا یہاں تک کہ رات ہونے لگی تو گائوں کے لوگوں نے بزرگ اور مریدوں کو بہت تنگ کرنا شروع کیا اور گائوں سے نکال دیا بزرگ نے اللہ سے دعا مانگی کہ اس گائوں کے رہائشی اسی گائوں میں شادوآباد رہیں۔ دعا دے کر وہ پاس ہی میں دوسرے گائوں چلے گئے، جب گائوں والوں کو حضرت کے آنے کا علم ہوا تو انہوں نے خوب خدمت کی ۔کھانے مشروبات پیش کئے، اگلے روز جب بزرگ جانے لگے تو گائوں کے لوگوں کے لیے دعا کی کہ شاد و آباد رہو، دنیا کے کونے کونے میں پھیل جائو، کامیابیاں تمھارا نصیب ہوں۔جب گائوں سے دور پہنچے تو مرید نے سوال کیا کہ حضرت جن گائوں کے لوگوں نے ہمیں دھتکارااور گائوں میں قیام کی اجازت تک نہ دی انہیں آپ نے دعا دی گائوں میں رہو اور شاد و آباد رہو اور جنہوں نے ہماری خوب خدمت کی ان کو آپ نے گائوں سے نکلنے اور پوری دنیا میں بکھر جانے کی دعا دی ایسا کیوں؟بزرگ مسکراتے ہو ئے بولے کہ جن لوگوں نے بد اخلاقی کی ان کی پرورش ہی ایسی ہوئی ہے وہ جہاں بھی جائیں گئے بد اخلاقی اور بدی کو ہی فروغ دیں گے اس لیے میں نے دعا کی کہ اسی گائوں میں آباد رہیں اور جن لوگوں نے مہمان نوازی کی اور اعلی اخلاق کا مظاہرہ کیا یہ بہترین پرورش کا نتیجہ ہے یہ لوگ جہاں بھی جائیں گے خیر ہی بانٹیں گے اس لیے انہیں دعا دی کے دنیا میں پھیل جائیں اور لوگوں کے لیے خیر کا سبب بنیں۔ ایسے ہی ڈاکٹر شمس کے ساتھ دیگر عملے کے لو گوں میں بھی ڈاکٹر سید شمس کی جھلک نظر آتی ہے یہ جہاں بھی جائیں گے خیر ہی خیر تقسیم کریں گے۔ اپنی زندگی میں ایسے عظیم ڈاکٹر کے لیے خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور دعا ہے کہ اللہ ڈاکٹر شمس اور ان کے دیگر ساتھی ڈاکٹرز کو صحت و تندرستی والی زندگیاں عطا کرے آمین آپ نے میرے لئے جو کچھ کیا آپ سب کا شکریہ!

اپنا تبصرہ بھیجیں