انصاف کے ساتھ احتساب کا توازن ۔۔۔۔ قادر خان یوسف زئی

حالیہ دنوں میں پاکستان اپنی سیاسی تاریخ کے ایک نئے موڑ پر آ کھڑا ہوا ہے۔ قوم ایسے عوامل کے پیچیدہ تعامل سے دوچار ہے جو اس کے جمہوری اداروں کو مضبوط یا کمزور کر سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی سیاسی میدان میں واپسی، انتہا پسند عناصر کے عروج کے ساتھ، مختلف سیاسی اتحادوں کی حمایت اور مخالفین کے بیانیہ کے ساتھ پولرائزڈ ماحول کا باعث بن رہی ہے۔ عمومی تاثر ہے کہ سابق وزیر اعظم کسی مبینہ ڈیل کے نتیجے میں پاکستان واپس آئے ، قانونی نکات کیا ہیں ، اس حوالے سے قانونی ماہرین ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں ، عوام کے نزدیک سیاسی آرا منقسم ہے اور اس معاملے پر ہر دو جانب سے اپنی سیاسی وابستگی کے تحت جذباتی بیانیہ ہے اور سوشل میڈیا اس وقت میدان جنگ بنا ہوا ہے ۔ واضح رہے کہ انتہا پسندی نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک طویل سایہ ڈالا ہے، جس نے ملک کو عدم استحکام اور عدم تحفظ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ انتہا پسند گروہوں کا دوبارہ سر اٹھانا ملک کے سماجی تانے بانے اور جمہوری اداروں کے لیے شدید خطرہ ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ پاکستان کی جانب سے اس کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کے باوجود پرتشدد انتہا پسندی مسلسل پھل پھول رہی ہے۔ حکومت، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو اس لعنت کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ اس امر کو نظر انداز نہیں یا جاسکتا کہ عام انتخابات سے قبل ملکی سیکیورٹی کو فل پروف ہونا چاہیے تاکہ جب بھی الیکشن ہوں تو عوام بے خوف اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔
میاں نواز شریف کی واپسی نے سیاسی میدان میں نئی ہلچل پیدا کردی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا شکوہ اس کا بیانیہ بنتا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف کی واپسی دراصل ایک جماعت کو خصوصی رعایت کا نتیجہ ہے ۔ دوسری جانب تحریک انصاف کا مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے، 9مئی کے واقعات کے بعد سے ان کے حق میں سیاسی فضا ہموار نہیں ہوسکی اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے بانی چیئرمین جیل میں ہیں جو انتخابی مہم چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ میاں نواز شریف کے حامی ان کی وطن واپسی کو تبدیلی کے لیے ایک ممکنہ امکانات پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں، جب کہ ناقدین کو ان کے ارادوں پر شک ہے کہ میاں نواز شریف قوم کو اس کی موجودہ دلدل سے نکال سکتا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف، ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں، جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کو معاشی و سماجی بحران کو ختم کرنے کے لئے کوئی ایک جماعت مکمل کردار ادا نہیں کر سکتی، گزشتہ اتحادی حکومت میں دیکھا جا چکا ہے کہ میاں شہباز شریف کو اہم فیصلے کرنے کے لئے طویل سوچ و بچار سے کام لینا پڑا اور بادی النظر معیشت کے بحران ، مہنگائی کا سارا ملبہ انہیں ہی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے قومی حکومت بنانے میں بڑے چیلنجز ہیں، لیکن اصل چیلنج پاکستان کے اکثر منقسم سیاسی دھڑوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کے بیانات ان کی پارٹی کی پالیسی کے لیے اپنے وژن کو برقرار رکھنے کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگرچہ ایک وسیع سیاسی اتحاد کی تعمیر کا ہدف اہم ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ مختلف نظریات اور پارٹی مفادات اس کوشش کو پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔ کامیابی کی کلید جمہوری عمل کے اندر نقطہ نظر کے تنوع کا احترام کرتے ہوئے مشترکہ بنیاد تلاش کرنے میں مضمر ہے۔ لیکن سیاسی اکھاڑے میں بیانیہ کی مقبولیت کے لئے ایک دوسرے پر الزامات اور کیچڑ اچھالنے کا وتیرہ بھی ہماری سیاست کا اہم حصہ رہا ہے۔ سخت الزامات و تنقید کے باوجود ملکی مفاد کے نام پر اتحاد بنا لینا ، کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن کیا اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام کے دلوں میں ایک دوسرے کے نفرت کو مزید بڑھایا جائے۔ موجودہ پرآشوب دور میں سب سے زیادہ تشویش قومی سلامتی ہے۔ مختلف خطوں میں عدم استحکام، انتہا پسند عناصر کا پھیلائو اور ان سے ملک کی سلامتی کو لاحق ممکنہ خطرات تشویشناک ہیں۔ ان خدشات کو موثر طریقے سے حل کرنے میں ناکامی کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی نے انصاف، احتساب کے اصولوں اور عدلیہ کے کردار کے بارے میں ایک متنازع بحث کو دوبارہ جنم دیا ہے۔ پاکستان کی متعدد سیاسی جماعتوں نے ملک کے قانونی نظام میں انصاف اور غیر جانبداری کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ یہ مطالبہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کے اطلاق کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے۔ احتساب کسی بھی جمہوری نظام کا بنیادی اصول ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جو لوگ اقتدار کے عہدوں پر ہیں یا رہے، وہ اپنے اعمال اور فیصلوں کے لیے جواب دہ ہیں۔ عدلیہ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے اور انصاف کی غیر جانبداری سے فراہمی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ بلا خوف و خطر قانون کی تشریح اور اس کا اطلاق کرے۔ مساوی مواقع کا مطالبہ اس یقین سے پیدا ہوتا ہے کہ اداروں کو آزاد اور غیر جانبدار ادارہ رہنا چاہیے، سیاسی دبائو یا تحفظات سے محفوظ رہنا چاہیے۔ یہ غیر جانبداری قانونی نظام پر عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ انصاف کے ساتھ احتساب کا توازن کسی بھی قانونی نظام کے لیے ایک نازک کام ہے۔ احتساب کے عمل کو سیاسی انتقام کے آلے یا موم کی طرح اپنے حق میں موڑنے کے طور پر نہیں بلکہ شفافیت اور گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے ذریعے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اس تناظر میں، یہ ضروری ہے کہ یہ عمل شفافیت اور احتساب کے ساتھ انجام دیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں