تابو ت سکینہ کے کچھ تاریخی حقائق

انیلا محمود

حضرتِ سیدنا آدم علیہ الصلوة والسلام کے دنیا میں تشریف لانے کے بعد اللہ عزوجل نے انہیں شمشاد نامی درخت کی مضبوط لکڑی سے بنا ہوا اور سونے کا کام کیا ہوا 3 گز لمبا اور 2 گز چوڑا ایک انوکھا صندوق عطا فرمایا جو کہ منتقل ہوتا ہوا حضرتِ سیدنا موسی علیہ الصلو ةوالسلام تک پہنچا۔ اِس صندوق کو تابوتِ سکِینہ کہا جاتا ہے۔
حضرتِ سیدنا آدم علیہ الصلوة والسلام کو جب صندوق ملا تو اس میں تمام انبیائے کِرام علیھِم السلام اور ان کے مکانات کی تصویریں تھیں۔
سید الانبیا (حضرتِ محمد مصطفے)صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور آپ کے مقدس مکان کی تصویر ایک سرخ یاقوت(یعنی لال قیمتی پتھر) میں تھی۔ اس تصویر میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز کی حالت میں تھے جبکہ آس پاس صحابہ کِرام علیھِم الرضوان موجود تھے۔ یہ تصویریں قدرتی تھیں۔ انسان کی بنائی ہوئی نہ تھیں۔
جب حضرتِ سیدنا موسی علیہ الصلوة والسلام کو یہ صندوق ملا تو آپ اس میں اپنا خاص سامان رکھنے لگے۔ اس کے علاوہ صندوق میں ٭توریت شریف کی تختیوں کے ٹکڑے ٭جنتی لاٹھی ٭حضرتِ سیدنا موسی علیہ الصلوة والسلام کا لباس اور ٭حضرتِ سیدنا ہارون علیہ الصلوة والسلام کا عِمامہ اور ٭ان کی لاٹھی ٭حضرتِ سیدنا سلیمان علیہ الصلوة والسلام کی انگوٹھی اور ٭بنی اسرائیل پر نازل ہونے والا من بھی موجود تھا۔
اس تابوت کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہے :
سور البقر : 248
ترجمہ:
اور انہیں ان کے نبی نے کہا کہ اس (طالوت)کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق (تابوت) آئے گا اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت( یعنی ایک تسلی)ہے اور آل موسی و آل ہارون نے جو کچھ چھوڑا تھا اس میں سے باقی ماندہ چیزیں ہیں۔ اسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ بے شک اس میں تمہارے لیے یقینا ایک نشانی ہے، اگر تم مومن ہو۔
مندرجہ بالا آیت کا سیاق و سباق یہ ہے کہ بنی اسرئیل نے طالوت کی بطور بادشاہ نامزدگی پر اعتراض کیا کہ وہ اس منصب کے لئے اہل نہیں ہے، تو اس وقت کے نبی اشمویل(سموئیل)نے کہا کہ اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ اس پر یہ تابوت نازل ہوگی جس کو فرشتے اٹھائے ہوں گے۔

اسرائیلی تابوت سکینہ کو اپنے قبلہ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق حضرت دائود علیہ السلام نے تابوت سکینہ کے تحفظ کے لئے ایک مضبوط عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ عمارت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں مکمل ہوئی اور اسے ہیکلِ سلیمانی کا نام دیا گیا۔
حضرتِ سیدنا موسی علیہ الصلوة والسلام جنگ میں اِس صندوق کو آگے رکھتے تھے، اِس سے بنی اسرائیل کو سکون نصیب ہوتا تھا ٭بنی اسرائیل کو جب کوئی مشکل پیش آتی تو وہ اِس صندوق کو سامنے رکھ کر دعا کرتے تھے ٭دشمنوں کے مقابلے میں اِس کی برکت سے فتح پاتے تھے ٭جب آپس میں اِختِلاف ہوتا تو صندوق سے فیصلہ کرواتے، صندوق سے فیصلے کی آواز آتی تھی ٭بلائیں اور آفتیں صندوق کی برکت سے ٹل جاتی تھیں۔
جب بنی اسرائیل اللہ عزوجل کی بہت زیادہ نافرمانی کرنے لگے تو ان پر یہ غضب ہوا کہ قومِ عمالِقہ کے بہت بڑے لشکر نے حملہ کر کے ان کی بستیاں تباہ کر ڈالیں اور یہ انوکھا صندوق بھی اٹھا لے گئے۔
اِس کے بعد قومِ عمالِقہ نے صندوق کو گندی جگہ رکھ کر بے ادبی کی، جس کے نتیجے میں وہ مختلف بیماریوں کا شِکار ہوگئے اور ان کی 5بستیاں ہلاک ہوگئیں، انہیں یقین ہوگیا کہ یہ سب مقدس صندوق کی بے ادبی کا نتیجہ ہے، چنانچہ انہوں نے صندوق ایک بیل گاڑی پر رکھ کر بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف چھوڑ دیا، وہ صندوق چار فرشتوں کی نگرانی میں اس وقت کے نبی حضرتِ سیدنا شموِیل علیہ الصلوة والسلام تک پہنچا، یوں بنی اسرائیل کو دوبارہ یہ عظیم نعمت حاصل ہوگئی۔
اس واقعے کے بعد بنی اسرائیل نے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کیا۔ بعد ازاں رومیوں نے حملہ کیا اور اسے ایک بار پھر نشانہ بنایا۔ بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اہل بابل اسے اپنے ساتھ لے گئے جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسے آسمانوں پر اٹھالیا گیا۔ جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیامت کے قریب حضرتِ سیدنا اِمام مہدی رضی اللہ تعالی عنہ جب تشریف لائیں گے تو وہ اس صندوق کو فلسطین کی طبرِیہ نام کی ایک مشہور جھیل سے نکالیں گے۔جبکہ ایک قول کے مطابق آپ رضی اللہ تعالی عنہ اسے ترکی (Turkey) کے شہر انطاکیہ (Antakya) کی کسی غار سے نکالیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں