فضائی آلودگی بڑا چیلنج ۔۔۔نمٹا کیسے جائے گا ؟؟؟ملک عبدالجبار

دنیا کے نقشے پر موجود ممالک میں سے ہرملک کے پاس اپنی زمین ہے اور اس دھرتی ماں کی حفاظت کی ذمہ داری اس ملک کے باسیوں اور ریاست کے اداروں پر عائد ہوتی ہے مگر آسمان سبھی کا سانجھا ہے اور فضا کو صاف رکھنے کی ذمہ داری سبھی پر عائد ہوتی ہے اگر کوئی ملک فضاء میں کاربن زیادہ چھوڑ رہا ہے تو اسکے پڑوسیوں کو اسکے اثرات بھگتنا ہونگے اور اگرکوئی ملک خود کاربن کے اخراج میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے تو اسکے اپنے لوگ بھی اس سے متاثر ہونگے ۔سب سے زیادہ کاربن چھوڑنے والے ممالک میں سرفہرست چین ،جو ہمارے پڑوس میں موجود ہے ،دوسرے نمبر پر امریکہ ہے جبکہ کاربن کا اخراج کرنے والا چوتھا بڑا ملک انڈیا ہے وہ بھی ہمارا پڑوسی ہے ۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اس خطے میں سب سے کم کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والا ملک پاکستان ہے جو ایک فیصد سے کم کاربن ہوا میں چھوڑ رہا ہے ۔صنعتی انقلاب کے بعد تیل ،کوئلہ اور قدرتی گیس کو جلانے کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں گزشتہ تین دہائیوں سے خاصااضافہ دیکھنے کو ملا ہے ناسا نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کرہ ارض پر کاربن اخراج اور انجذاب کے جائزے کے بعد اقوام عالم پر زور دیا ہے کہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو روکنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں ۔درختوں کی کمی اور کاربن کی زیادتی گلوبل وارمنگ کا باعث بن رہی ہے ۔زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے حوالے سے ماہرین کاکہنا ہے کہ بارشوں میں کمی کے باعث خشک سالی اور کچھ علاقوں میں بارشوں میں اضافے کے باعث سیلاب کے خطرات پیدا ہونگے ۔ہمیں خشک سالی اور سیلاب دونوں کا سامنا ہے ۔کیونکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں صفحہ اول پر موجود ہے ۔موسمیاتی تبدیلی سے کم آمدن والے ممالک نمٹنے میں ناکام ہیں کیونکہ وسائل کی کمی آڑے آتی ہے ۔زیادہ کاربن پیدا کرنے والے ممالک پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی مدد کریں اس عالمی چیلنج سے اقوام عالم کو ملکر نمٹنا ہوگا تو کامیابی ملے گی ،مگرآج المیہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے جہاں ترقی پذیر ممالک کی مدد اور ان سے تعاون کی باتیں کی جارہی ہیں ،وہیں کاربن کے خاتمے کیلئے ملکر جدوجہد پر بھی زور دیا جارہا ہے ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں پر بھی برملا کہہ چکے کہ پاکستان کاربن ایک فیصد سے بھی کم پیداکرنے کے باجود کاربن کے نتائج کی بھاری قیمت چکا رہا ہے ۔دنیا کو آگے بڑھ کر پاکستان کیساتھ تعاون کرنا چاہیے مگر ان سب باتوں کاکوئی حاصل وصول نہ ہوا۔اچھی تقاریر ہوئیں بیانات بھی اچھے داغے گئے کافی حد تک دنیا کے سنجیدہ ممالک نے اس اہم موضوع پر سیاست بھی چمکائی ،یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی طرح موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہمارے حصے میں صرف نقصان آرہا ہے ۔پہلے ہماری کمر دہشت گردی نے توڑی ذراسنبھلے نہ تھے کہ کرونانے آن پکڑا،ابھی کرونا سے مکمل نجات نہ ملی تھی کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات رونما ہونا شروع ہوگئے اور سیلاب نے ملکی معیشت پر کاری ضرب لگادی ۔کمزور معیشت والے ملک کے ایک کے بعد ایک امتحان نے ہمارا حوصلہ نہیں توڑا ، اپنے محدود وسائل میں آج بھی ہم قدرتی آفات اوربحرانوں سے لڑرہے ہیں اور کافی حد تک کامیابیاں بھی سمیٹتے آرہے ہیں، موسمیاتی تبدیلی کی للکار پرہم اگر نیند سے بیدار نہ ہوئے ، ریاستی اور عوامی سطح پر عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو پھر شاید دیر ہوجائے گی اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔ملکی سطح پر جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ ہماری ترجیح ہونے چاہیے ،عالمی سطح پر ہمیں سفارتی محاذ پر از سر نو اپنی حکمت عملی کو مرتب کرنا ہوگا تاکہ ہم سفارتی محاذموسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے اصل محرکات پر دنیا کی توجہ مبذول کروا کر کامیابی حاصل کرسکیں ۔اندرونی طور پر سب سے اہم ضرورت موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں تعلیم ، آگاہی اور بیداری بڑھانے پر توجہ مر کوز کرنا ہوگی ۔موسمیاتی تبدیلی پر عوامی بیداری اور حمایت کے بغیر اس محاذ پرکامیابی مشکل امر ہے ۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔سب سے پہلے شجرکاری، پودوں کی حفاظت، جنگلات کی کٹائی کو کم کرنے کیلئے مناسب حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے ۔ پانی کی دستیابی کو بڑھانے اور ضیاع کو کم کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی جانی چاہیے ۔توانائی کے حوالے سے شمسی توانائی اور پن بجلی پرانحصار بڑھانا ہوگا، ہمیں روزمرہ زندگی میں ایسی تبدیلیاں لانا ہونگی جس سے کاربن کے اخراج میں کمی واقع ہو ۔اسکے علاوہ ہمیں اینٹوں کے بھٹوں سمیت صنعتوں میں تیل ،کوئلہ اور قدرتی گیس کے استعمال کو کم سے کم کرنا ہوگا ۔سرکاری سرپرستی میں ایک منظم آگاہی مہم چلا کر اس اہم معاملے کی جانب عوامی توجہ مرکوز کروانا ہوگی اور لوگوں کو راغب کرنا ہوگا کہ وہ ایئر کنڈیشن اور ہیٹر کے غیرضروری استعمال کو ترک کردیں ۔شمسی توانائی کی طرف آئیں ، کاربن کے اخراج کی حوصلہ شکنی اور آکسیجن کی پیداوار میں اضافے کی کوشش کی جائے ۔عوام،طلباء ،سول سوسائیٹیز،مفاد عامہ کے حوالے سے کام کرنے والے غیرسرکاری ادارے اور قانون سازی کرنے والوں کو پائیدار اور محفوظ مستقبل کیلئے ملکر کام کرنا ہوگا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں