ڈیل، ڈھیل اوراس سے آگے

ٍٍٍگزشتہ چند ہفتوں سے مسلسل یہی سنتے آئے کہ الیکشن نہیں ہونے والے، کوئی کہہ رہاتھا موسم سازگار نہیں اور کوئی کہہ رہاتھا کہ امن و امان کی صورتحال اس بات کی اجازت نہیں دے رہی۔سیاست دان اور وورکر بھی ٹھنڈے ٹھاربیٹھے تھے تاہم ابھی واقعی لگ رہا ہے کہ الیکشن ہورہے ہیں کیونکہ سیاست دان بھی سرگرم ہوچکے ہیں اور کارکن بھی ایک دوسرے پر بازی لینے کی حتی المقدور کوشش کررہے ہیں۔سیاسی جماعتیں جلسے بھی ایک دوسرت سے بڑھ کرکرنے اور کامیاب ہونے کے دعوے دارہیں۔ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ ان کی مخالف جماعت کے جلسے میں خالی کرسیاں تھیں اور کارکن بہت کم تھے۔
سیاست دانوں کی کلابازیاں ، ووٹر سے چالبازیاں اور سیاسی کرشمے دیکھانا تو مشہور تھا ہی بادشاہ گر بھی یہی سیاست دان کہلاتے ہیں اسی سلسلے کی کڑی ماضی قریب میں آنے والی نئی ٹرم استعمال ہوا کرے گی کہ کون کتنا بڑا ڈیل ساز ہے۔ سیاست داں تو اپنی پارٹی کاکنوں کی صف بندی کاکسی فوجی کی طرح گر نہیں جانتے مگرغیر سیاسی اور غیر مرعی قوتیں سیاستدانوں سے کہیں زیادہ کرشمہ ساز ہوسکتا ہے، اس کا مظاہر وطن عزیز میں بارہاہم دیکھ چکے ہیں ، اسی لئے تو پاکستان پر حکومت سیاست دانوں سے زیادہ کسی اور نے کی جس کی وجہ سے ان کا مقابلہ سیاست دانوں سے نہیں کیا جاسکتا ، اب اگر تقابل کریں کے تو انہیں جرنل حکمرانوں کا آپس میں کہ ان میں سے کون زیادہ سیاسی اتار چڑھاؤ کا ماہر وہنر مند تھا ، فیلڈ مارشل ایوب خان سے شروع کریں ،جنرل یحیٰ خان اور پھرجنرل ضیاء الحق تک تجزیہ کرتے آتے ہیں تو ان سب کے ہاں یہ بات مشترک تھی کہ انہوں نے کسی ایک سیاسی جماعت کو اپنا پٹھو بنائے رکھا اور باقی جماعتیں اور بالخصوص دینی جماعتیں ان کی دست راست رہیں۔ لیکن جنرل پرویز مشرف کے ہاں ایک عجیب و غریب سیاست نظر آتی ہے اور یہ سیاست نوابزادہ نصراﷲخان (نوے کی دھائی میں مفاہمت کی مثال بزرگ سیاست دان ) کی سیاست کے بالکل الٹ ہے وہاں جتنے ہارے ہوئے تھے وہ ان کے گرد جمع رہتے تھے یہاں جنرل پرویز مشرف کے پاس سارے جیتے ہوئے سیاست داں ہروقت ان کے آشیر باد کے منتظر رہتے تھے کہ اب ہے کہ جب ہے جنرل صاحب ہماری سیاست کو بھی دوام بخشیں گے،جس کے وہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکومت کے مزے لیں گے۔
جنرل مشرف ایک فوجی ہونے سے زیادہ سلجھے ہوئے سیاست دان نظر آتے تھے کہ وہ اپنے ہواریوں کی ہربات من و عن نہیں مان لیتے بلکہ خوب غور و غوض کے بعد کسی بات کی حامی بھر تے ہاں چند ایک مقامات پر ان سے فاش غلطیاں بھی ہوئی ان میں لال مسجد اور چیف جسٹس کا کیس کو ہینڈل کرنا بھی شامل ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کی سیاست سے اندرون ملک یا بیرون ملک کسی قسم کا فرق پڑا پہلے ہمارے پیارے جنرل نے سعودی حکومت کے ساتھ ڈیل کرکے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ان کو گود دے دیا حالانکہ کہ ان کے سامنے ‘‘پھانسی ’’ جیسی روایت موجود تھی ، عدالتیں تو پہلے ہی ان کے ساتھ محبت کا حلف اٹھا چکیں تھیں۔ مگر وہ سیاست کرنا چاہتے تھے محاز آرائی نہیں یوں اس قدم سے انہوں نے اسلامی ممالک کے دل موہ لئے۔اسی جنرل نے اس وقت کے امریکی صدر بش کے ساتھ ڈیل کرکے عوام کو ‘‘سب سے پہلے پاکستان ’’کا نعرہ دیااور اتحادیوں کا فرنٹ لائن اتحادی بن گیا اور بش کواپنا گرویدا بنا لیا، ان ڈیلوں کو بڑی خوش اسلوبی سے چلاتے رہے پھر انہوں نے مسلم لیگ کے اندر میاں اظہر کو کھڈے لائن لگا کر چوہدری برادران سے ڈیل کرلی یوں انہیں ایک سیاسی پارٹی کا کندھا بھی مل گیا۔ان جنرل کے ہاں ڈیل کے اوپر ڈیل کرنا بھی کافی مہارت سے پایا جاتا ہے چوہدری برادران کو صوبے تک محدود کرکے جمالی کو وزیر اعظم بنایامگر توقعات پوری نہ ہونے پر ایک ٹیکنوکریٹ کو سیاسی لبادہ اُڑواکر وزیر اعظم بنائے رکھا کسی نے چوں چراں تک نہ کی۔
بات یہاں تک نہیں ختم ہوتی بلکہ جرنل پرویز مشرف نے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ایک منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح اپنے سحر میں ڈالے رکھا۔ متحدہ قومی مؤمنٹ کے ساتھ ان کی ڈیل بھی کافی کامیاب رہی انہیں سندھ کے گورنر تک کا عہدہ دے دیا اور اپناسیاسی غلام بنالیا، مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ڈیل‘‘ ہم خرمہ ہم ثواب’’ کی طرح رہی کہ اسلام آباد میں روشن خیالی بھی پنپتی رہے، صوبہ پختونخوا میں بلاشرکت غیرے اور بلوچستان میں روشن خیالوں کے ساتھ مل کر دین بھی پنپتا رہے۔ اس دوران شریعت بل بھی آتا جاتا رہے، مولانا کی ڈیل ایک کرشمہ سے کم نہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں حکومت میں بھی تھے اورسرکاری اپوزیشن کا کردار بھی بخوبی ادا کرتے رہے تاکہ جنرل کے لئے کوئی حقیقی اپوزیشن بن کر ان کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے ۔ اپنے آپ میں سیاست کے گورو اور خودساختہ بھٹو دوئم میاں نواز شریف جنرل مشرف کے دور میں ایک بار پھر شاہی طیارے میں سوار ایک ڈیل کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔دوسری طرف دو دفعہ وزیراعظم پاکستان رہنے والی’ بھٹو جیسے سیاست دان باپ کی سیاست دان بیٹی شہید بے نظیر بھٹو بھی ا س ڈیل ماسٹر سے ڈیل کئے بغیر وطن نہ آسکی۔ وہ پاکستان آئی بھی ڈیل سے تھیں اور وطن میں جب سارے کے سارے سیاست داں ، سیاسی ورکر اور وکیل و جج قید تھے عین اسی وقت محترمہ آزاد پھرتی رہیں تو یہ بھی ایک ڈیل ہی تھی۔ باہر کی ڈیلیں تو وہ بخوبی کرتے رہے تاہم جب انہیں وردی اتارنے کے لئے دباؤ بڑھا تو انہوں نے فوج کے اندر ڈیل کی روایت ڈالی، اپنی مرضی کے بندے کو وائس چیف آف آرمی سٹاف بناکر بعد میں آرمی چیف بنانے کے لئے راضی کرلیا یوں یہ ڈیل ان کے عہدے کی ایک اہم ڈیل تھی، جو وردی میں نہ ہوتے ہوئے بھی انہیں وردی کے اختیارات استعمال کرنے کے لئے راہ ہموار کر گئی تھی۔ ان کے بعد بھی ڈیلیوں کا تسلسل جاری ہے ، راحیل شریف سے باجوہ ڈیل اور اس سے آگے بھی جاری ہیں تب اور اب یہ ‘‘ ڈیل ماسٹر’’ کی مہارت وسیاسی بصیرت تھی اور ہے کہ وہ اتنی ساری ڈیلوں کے ساتھ کیسے ڈیل کرتے ہیں۔ہرڈیل ماسٹر منجھے ہوئے پتنگ باز کی طرح اپنی پتنگ بھی اڑا تے ہیں اور کسی بھی ڈور کو الجھنے بھی نہیں دیتے۔ماضی کی طرح آج بھی سیاست ہورہی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ نئی ڈیل کس کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ ڈیل کتنی دیر تک رہتی ہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں