کابل انتظامیہ کی دورہ امریکہ میں اقتدار بچانے کی آخری کوشش…………. قادر خان یوسف زئی

افغان صدر اشرف غنی او ر چیئرمین قومی مفاہمتی کونسل ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی 25 جون کو امریکی صدر جو بائیڈن سے پہلی براہ راست ملاقات ہوگی۔ ڈاکٹر عبداللہ نے امریکی صدر کی واشنگٹن دعوت کا خیر مقدم کیا ہے، تاہم افواہیں زور پکڑ رہی ہیں کہ بائیڈن کی جانب سے امریکی و نیٹو افواج کے انخلا سے قبل بین الافغان مذاکرات میں لچک دکھانے پر زور دیا جائے گا تاکہ عالمی برداری کی جانب سے امریکہ پر یہ دباؤ کم کیا جاسکے کہ سوویت یونین کی طرح امریکہ بھی افغان امن حل کرائے بغیر جلد بازی کرتے ہوئے افغانستان سے نکل گیا۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی کا کہناہے کہ”صدر بائیڈن افغان قیادت کو امریکہ کی جانب سے سفارتی، معاشی اور انسان دوست تعاون کا یقین دلائیں گے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان سے فوج کی واپسی کا عمل جاری ہے اور ایسے میں صدر غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے دورہ امریکہ میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے معاملات کو اجاگر کیا جائے گا“۔ خیال رہے کہ سوویت یونین کی عجلت میں واپسی کے بعد افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوا تھا اور اس شورش کو افغان مدارس کے طالب علموں نے ختم کیا جنہیں بعد میں طالبان کا نام دیا گیا۔ یہ وہی طالب علم تھے جو امریکہ و بیشتر مسلم اکثیریتی ممالک کی مالی و سفارتی سپورٹ پر سوویت یونین کے خلاف ’جہاد‘ کرتے رہے تھے اور د نیا بھر میں امریکہ مسلمانوں میں جہادکی اہمیت کو اجاگر کرتا اور انہیں ترغیب دیتا کہ وہ افغانستان جاکر سرخ ریچھ سے جہاد کریں۔ جب سوویت یونین کو افغانستان چھوڑ کر جانا پڑا تو اس سپر پاور کے مالی حالات اس قدر خراب ہوچکے تھے کہ وعدے کے مطابق وہ افغانستان میں امن بحالی کے لئے فنڈز فراہم نہ کرسکا اور افغان ملیشیا کے گروہوں نے اپنے زیر اثر علاقوں میں قبضہ کرکے اپنے قوانین نافذ کردیئے۔ ان ملیشیا و جنگجو گروپس نے کابل کو فتح کرنے کے لئے اتنی بھیانک بمباریاں و حملے کئے کہ سوویت یونین کے ساتھ جنگ میں بھی کابل کو اس قدر نقصان نہ پہنچا تھا جتنا خانہ جنگی میں ان گروپوں نے کابل کو کھنڈر بنا دیا، وقت کا تماشادیکھیں تو وہی عناصر آج کابل انتظامیہ کے اتحادی ہیں۔
اشرف غنی و عبداللہ عبداللہ کے درمیان بین الافغا ن مذاکرات میں ایک نکتے پر اعتراض سامنے آیا کہ افغان سٹیک ہولڈرز نے افغان صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے عبوری حکومت قائم کرنے پر زور ڈالا تھا، لیکن اشرف غنی نے قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ و دیگر سٹیک ہولڈرز کے مطالبے کو رَد کرتے ہوئے نئے افغان انتخاب اور اس میں افغان طالبان کو حصہ لینے کی تجویز دی کہ اگر افغان طالبان انتخابات کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے لئے معاہدہ کرلیتے ہیں تو وہ استعفیٰ دینے کے لئے تیار ہیں۔ صدر اشرف غنی کے اس منصوبے کو جو وہ ترکی امن کانفرنس میں پیش کرنا چاہتے تھے، افغان طالبان نے مسترد کردیا کہ ان کے سامنے چار مرتبہ صدارتی انتخابات ہوچکے ہیں اگر وہ انتخابی عمل میں حصہ لینا چاہتے تو وہ کسی بھی صدارتی انتخاب میں لے سکتے تھے، لیکن وہ امریکی حاشیہ بردارحکومتوں کوغیر قانونی سمجھتے ہیں، کیونکہ جب امریکہ نے افغانستان پر جارحیت کی تو مدارس کے اُن طالب عملوں نے جو افغان طالبان کہلائے، افغانستان میں امن قائم کرتے ہوئے، خانہ جنگی کا خاتمہ کرتے ہوئے امارات اسلامیہ افغانستان کی بنیاد رکھی تھی، گذشتہ دو دہائیوں سے امریکہ کے خلاف مسلح مزاحمت اسی امر پر کی جارہی تھی کہ غیر ملکی افواج افغانستان سے چلی جائیں، بالاآخر امریکہ کے ساتھ درد ِ سر دوحہ مذاکرات میں اصولی معاہدہ طے پانے کے بعد سست روئی سے عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں کابل انتظامیہ کی جانب سے بار بار رخنہ ڈالنے کی وجہ سے قیمتی وقت ضائع ہوا،تاہم کابل انتظامیہ نے وہی کیا جس کے لئے امریکہ و افغان طالبان کے درمیان دوحہ معاہدہ ہوا تھا، لیکن افغان طالبان نے کابل انتظامیہ کو دوحہ معاہدے سے ہٹ کر خود کو باقاعدہ فریق منوانے سے ناکامی کا شکار کیا، سابق صدر ٹرمپ گذشتہ برس کرسمس سے قبل ہی اپنی افواج کو واپس بلانا چاہتے تھے، لیکن اس اعلانیہ پر پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس کے درمیان اتفاق رائے پیدا نہ ہوسکا اور شدید اختلافات کی وجہ سے صدر ٹرمپ اپنے دور اقتدار میں افغان مسئلے کو حل کرانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ گو کہ ان کی جانب سے متعدد ایسی کوششیں کی گئیں کہ کسی بھی طرح افغان طالبان انہیں یہ تاریخی موقع فراہم کردیں کہ وہ نائن الیون کی تقریبات میں شریک ہوکر اس واقعے پر افسوس کا اظہار کریں اور دو منٹ کی خاموشی اختیار کرکے کیمپ ڈیوڈ طرز پر معاہدہ کرلیں، لیکن افغان طالبان نے امریکی صدر کی خواہش کو شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ نو منتخب صدر جو بائیڈن نے اپنے سابق صدر بارک اوباما کی پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے حتمی سوچ بچار کے بعد ایک مرتبہ پھر امریکی افواج کی واپسی کا اعلان کردیا، تاہم جس طرح اوباما نے غلطی کی تھی کہ تمام افواج کو نکالنے کے اعلان کے باوجود چند ہزار فوجی اور پرائیوٹ کنٹریکڑ افغانستان میں رہنے دیئے تھے، جس کی وجہ سے امن قائم نہ ہوسکا، اب بائیڈن بھی ترکی افواج کو افغانستان میں چھوڑنے کی منصوبہ کرکے غیر ملکی افواج کی واپسی میں رخنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، جس پر زمینی حقائق کے مطابق غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
کابل انتظامیہ گذرتے وقت کے ساتھ امریکی ونیٹو افواج کی واپسی پر سخت رنجیدہ و تشویش کا شکار ہے، عالمی دفاعی تجزیہ نگاروں و اداروں کی رپورٹس میں کھل کر کہا جارہا ہے کہ کابل، افغان طالبان کا مقابل نہیں کرسکتا اور امریکہ کے جانے کے بعد افغان طالبان اضلاع کے قبضوں سے شہروں کی جانب پیش قدمی کریں گے۔ واضح طور پر یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ کابل انتظامیہ کے پاس فی الوقت فضائی حملوں کی استعداد موجود ہے لیکن یہاں اس امر کا امکان ہے کہ چند مہینوں میں کابل کی فضائی قوت ختم ہوسکتی ہے اور زمینی جنگ میں افغان طالبان، کابل کی جانب پیش قدمی کرکے افغانستان میں اپنی حکومت قائم ہونے کا اعلان کرسکتے ہیں، تاہم اس حوالے سے افغان طالبان کے حلقوں میں تحمل و وقت گزاری کا عمل دیکھنے میں آرہا ہے، چونکہ ماضی کے مقابلے میں اس بار افغان طالبان کے سیاسی اثر رسوخ میں اضافہ بھی ہوا ہے اور اہم ممالک میں سفارتی طور پر امارات اسلامیہ افغانستا ن کی موجودہ حیثیت کو تسلیم کرکے پروکوٹول بھی دیا گیا، اس لئے گمان یہی ہے کہ افغان طالبان عجلت میں کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھائیں گے کہ وہ عالمی برداری میں ایک مرتبہ پھر تنہا ہوجائیں، گو کہ ماضی میں پاکستا ن، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، لیکن تشدد میں اضافے کے بعد اگر کابل پر افغان طالبان مسلح قوت کے ساتھ براجمان ہونے میں کامیاب ہوگئے تو انہیں پاکستان، ایران،سعودی عرب، قطر اور عرب ممالک سمیت، روس اور چین کی سفارتی حمایت سے ہاتھ بھی دھونا پڑ سکتے ہیں، جو یقینی طور پر افغان طالبان اس موقع پر بالکل نہیں چاہیں گے۔
دورہ امریکہ سے قبل کابل انتظامیہ کی جانب سے ایک اہم پیش رفت بھی سامنے آئی جب افغانستان کے صدر اشرف غنی نے افغان وزرائے دفاع، داخلہ اور آرمی چیف کو تبدیل کر دیا۔بیشتر حلقوں کی اس حوالے سے مختلف آرا سامنے ٓارہی ہیں، تاہم کابل ذرائع کے مطابق انتظامیہ اپنی فوجی حکمت عملی کو تبدیل کررہا ہے اور افغان طالبان کے 31اضلاع پر قبضے کے بعد صدر اشرف غنی، اپنی فوجی قیادت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، اس لئے افغان صدر کی جانب سے کابینہ میں تبدیلیوں کے بعد اسد اللہ خالد کی جگہ بسم اللہ خان محمدی کو قائم مقام وزیرِ دفاع تعینات کردیا گیا جب کہ حیات اللہ حیات کی جگہ عبدالستار مرزا خوال نئے وزیر داخلہ ہوں گے۔صدارتی محل کی جانب سے کہا گیا کہ جنرل ولی محمد نئے آرمی چیف ہوں گے۔ انہیں جنرل یاسین ضیا کی جگہ تعینات کیا گیا۔ اشرف غنی کے دورہ امریکہ سے قبل سابق صدر حامد کرزئی کا اہم بیان بھی سامنے آیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ”بین الاقوامی برادری یہاں (افغانستان) بیس سال پہلے آئی تھی اور اس کا واضح مقصد انتہا پسندی سے لڑنا اور استحکام لانا تھا،لیکن آج انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے۔ لہٰذا وہ ناکام ہو گئے ہیں“۔حامد کرزئی کے الفاظ میں وہ اپنے پیچھے جو لیگیسی چھوڑ کر جا رہے ہیں وہ ہے ”مکمل شرمندگی اور تباہی“۔ سابق صدر کے مطابق ان کے 13برس کے دور میں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تناؤ اس باعث تھے کہ وہ غیر ملکی افواج کا انخلا چاہتے تھے۔
صدر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا دورہ امریکہ، غیر ملکی افواج کو مزید روکنے کی ایک کوشش بھی قرار دی جا رہی ہے کہ دونوں شخصیات بائیڈن کو اپنے فیصلے میں نظر ثانی کرنے پر قائل کریں کہ جب تک افغانستان میں ’اتحادی حکومت‘ تشکیل نہیں پاتی اور افغان طالبان، اسلامی نظام کے بجائے جمہوری نظام پر رضامند نہیں ہوتے، وہ مکمل انخلا نہ کریں، خیال رہے کہ امریکی عہدے داروں کے مطابق انخلا کا60فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، تاہم افغانستان پر نگرانی کے لئے فضائی اڈے نہ دینے پرپاکستان کے دو ٹوک موقف سے امریکہ متبادل ذرائع استعمال کرسکتا ہے۔افغانستان میں امن کے لئے بین الافغان مذاکرات کا انعقاد اور اس کی کامیابی کے لئے امریکہ کو کردار ادا کرنا ہوگا کہ اپنے انخلا سے قبل افغانستان میں خانہ جنگی و پر تشدد کاروائیوں کو روکنے کے لئے ایک عبوری حکومت قائم کردی جائے جو افغان طالبان کے ساتھ مل کر ملک کے نظام و انصرام کا فیصلہ کرسکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں