وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا………. اظہاراحمد

تیسرا اور آخری حصہ
نبوت ملنے کے بعد کے مصائب وآلام۔
جیسا کہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا خمیر ہی اللہ سبحانہ نے ایسا بنایا ہوتا ہے کہ ابتدا ہی سے کفر وشرک سے پاک ہوتاہے،آقائے نامدار صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمام قسم کے منکرات اور فحشاء سے پاک اور منزہ تھےتمام جاہلیت کی رسومات سے متنفر اور بیزار تھے۔ بتوں کی پرستش سےسخت نفرت تھی۔یہاں تک کہ ایک دفعہ قسم اٹھا کر فرمایا کہ”خدا کی قسم میں کبھی لات کی پرستش نہ کرونگا۔خدا کی قسم میں کبھی عزیٰ کی پرستش نہ کرونگا۔
تمام رزائلِ دنیا سے اپنے آپ کو ہمیشہ جدا رکھا،کبھی شراب کو ہاتھ تک نہ لگایا۔کبھی قمار کا نہ سوچا۔
چنانچہ جب عمر مبارک چالیس سال کو پہنچی۔ایک دن آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم غارحرامیں عبادت فرما رہے تھے تو اس وقت اللہ سبحانہ کی طرف سے جبرائیل علیہ سلام کو بھیجا کہ جاؤ اب محمد(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس جس مشن کے لیے ان کو تیار کیا تھا اس کا وقت آنے کو ہے۔
یکایک جبرائیل امین غار کےاندر نبوت کاپروانہ لیکر داخل ہوئے،آپ علیہ صلاۃوسلام کو سلام کیا،پھر اگلا جملہ فرمایا۔ اقراء پڑھیئے آپ نے فرمایا:”ماانا بقاری”۔میں پڑھ نہیں سکتا۔ تو انہوں نے اللہ کے نبی کوپکڑ کر شدت سے دبایاتواللہ کے نبی کو مشقت محسوس ہوئی،مفسرین فرماتے کہ اللہ کے نبی کا نہ پڑھنا ایسا تھا کہ وہ فرمارہے تھے کہ میں وحی کی ہیبت اور دہشت کی وجہ سے پڑھ نہیں سکتا،یہ مطلب نہیں کہ میں “اُمّی”یعنی پڑھا ہوا نہیں ہوں ،خیر جب دو بار اصرار کرنے پر دوبارہ ان کو پکڑا شدت سے دبایا اورپھر فرمایا”اقراء بسم ربک الذی خلق”کہ اپنے پروردگار کے نام کی مدد کےساتھ پڑھئیے!۔
بعد آزاں گھر تشریف لائے ساراوقعہ حضرت خدیجہ سے بیان کیا،بدن مبارک پہ کپکی تاری تھی کہ اسطرح کی انوکھی چیزکا سامنانہیں ہوا تھاایسی صورتحال میں پریشانی اور گھبراہٹ کا شکار ہونا بعید نہیں۔ اللہ کے نبی نے فرمایا مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا “آپ کو مبارک ہو!قسم ہے اللہ کی ذات کی کہ وہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا”۔ آپ تو صلہ رحمی والے ہیں،ناداروں کی فکر کرنے والے دوسروں کا بوجھ اٹھانے والے ہیں،مسلم شریف کی روایت میں ہے “کہ آپ کبھی کسی فاحشہ کے پاس نہیں بھٹکے۔ خلاصہ کلام یہ ہے آپ تمام پاکیزہ صفات والےہیں عمدہ اخلاق کے پیکرہیں ۔ایسا شخص نہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں رسوا ہو سکتا ہے۔آپ رسولِ برحق ہیں۔ تسلی دینے کے بعد روایات میں ہےکہ سیدہ خدیجہ سب سے پہلے اللہ کے نبی پہ ایمان لے آئیں۔ان کے بعد اہل بیت نے دین محمد قبول فرمایا ،پھر آپ علیہ سلام نے دوستوں اور محبین کو دعوت الی اللہ دینا شروع کی،ابوبکر صدیق جن کاشماردوستوں میں سے تھا بلاتا مل وتدبر اسلام قبول کیا۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین سال تک مخفی طور پہ دعوت الی اللہ دیتے رہے۔پھر اللہ سبحانہ نے حکم فرمایا کہ اب علی الاعلان اور صاف صاف دعوت الی رب دیجئے م شرکین کی پراوہ مت کیجئے!اور “وانذرعشیرتک الاقربین”اور سب سے پہلےاپنے قریبی رشتہ داروں کو کفر اور شرک سے ڈرائیے!چنانچہ اللہ کے نبی نے اپنے خاندان کے چالیس لوگوں کو کھانے پہ بلایا،ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ کھانے سے فراغت پہ آقاعلیہ سلام نے جب ان کو دعوت الی اللہ دینا شروع کی،تو رشتہ داروں میں سے ابولہب نے یہاں سےمخالفت شروع کردی۔ان سب کی مخالفت کے باوجود،آقاءعلیہ السلام دین کی اشاعت کو پھیلانے سے پیچھے نہ ہٹے،چنانچہ آپ نے کوہ صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہوکرتمام قریش کے قبائل کو بنام پکار اوراکٹھا فرمایااوران سے گویا ہوئے۔”اگر میں آپ کو کہوں کہ اس پہاڑی کے عقب سے ایک لشکر آپ پہ حملہ آور ہونے والا ہے کیا آپ تصدیق کروگے”؟ سب نے بیک زبان ہو کر کہا” بیشک ہم آپ میں صدق اورسچائ کے سوا کچھ نہیں دیکھ رہے”۔اورمزیدمخاطب ہو کر فرمایا لبثت فیکم عمرا ۔ھل وجدتمونی صادقا ام کاذبا؟کہ “میں چالیس سال تک آپ کے درمیان رہا آپ نے مجھ کو کیسا پایا”؟سب نے جواب دیا “اماوجدنا فیک الا صدقا ہم نے آپ کو سراپا صدق پایا ہے”۔تو پھر اللہ کے نبی نے فرمایا:”لالہ الا اللہ پڑھ لو کامیاب ہو جاؤ گے”۔یہ سنتے ہی سب سے پہلا پتھر آقا کی طرف جو اچھالا وہ کوئ غیر نہیں تھا آپ کا چچا ابولہب تھا، کہنے لگا” تبا لک یا محمد الہذا ماجمعتنا”۔ ہلاکت ہو محمد (العیاذباللہ ) آپ پرہمیں اس لیے آپ نے جمع کیا تھا؟۔
اسکے بعدمخالفت کا بازار گرم ہو گیا،رشتے ناطے ٹوٹ گئے،اپنے بیگانے ہو گئے،ہمارے محبوب نبی کا امتحان شروع ہو گیا،تکالیفیں،مصائب اورآلام کی کوئی کثر باقی نہ رہی۔جو لوگ صادق امین کا لقب دیا کرتے تھے ،دشمن بن گئے۔ ہر ایک نے اپنا حصہ کی تکلیف دینے میں کثر نہ چھوڑی۔کوئی راستے میں کانٹے بچھاتایہاں تک کہ کسی نے اوجڑی تک پھینکی۔آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ پہ ظلم کے پہاڑ ڈہائے گئے۔ طائف کی وادیوں میں پتھروں کی بارش کی گئ۔ تمام لوگوں کا بائیکاٹ کی وجہ سے تین سال شیب ابی طالب میں گزارے۔ظلم و بربریت کے کاکوئ نسخہ ایسا نہ تھا جو کفار نے نہ آزمایا ہو۔دنیا میں اگر مصائب اور تکالیف کا سامناہمارے نبی نے کیا ہے شاید ہی کسی نے کیا ہو۔مصائب وآلام کی لمبی فہرست ہے جو کہ نوک قلم لانا مشکل ہے۔ تیرہ سال مکہ کے بہت مشکلوں سے گزرے،ہم سب قربان جائیں اپنے آقاء پہ ،کہ کبھی بھی اللہ سے شکوہ نہ کیا بلکہ اپنے دشمنوں کے لیے ہدایت کی دعا کی۔
بلاخر کفارنے جب دیکھا کہ دن بدن لوگ دین کی طرف ان کی اذیتوں کے باوجود داخل ہو رہے ہیں ۔روز بروز دینِ محمد کی آبیاری ہو رہی ہےتو انہوں نے متفقہ طور پہ ستانے کا پروگرام بنایا،تاکہ یہ لوگ دین سے پھر جائیں۔ اور محمد کا نام ہی مٹ جائے۔یہاں تک کہ نعوذبااللہ آقائے نامدار محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو پھر اللہ سبحانہ نے جبرائیل کو بھیجاحکم ربانی دیکر، کہ مدینہ کی طرف ہجرت کی جائے۔مدینہ میں چونکہ دین محمد کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔ایک سنہری دور آقاء علیہ سلام کا منتظر تھا ۔اللہ کی مدد ونصرت سے اللہ کے نبی مدینہ صحیح سلامت پہنچ گئے ۔
ہجرت کے بعد اللہ سبحانہ نے کفار سے اپنے نبی کی جان کی حفاظت کی،آہستہ آہستہ دین کی ترویج شروع ہوگئ، امت محمدیہ صلی علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد سیاسی اور سماجی زاویہ سے اپنے کو مستحکم کیا، مدینے کے اکثر افراد بہت سی دینی اقدار اور انفرادی اور اجتماعی اخلاق سے نا آشنا تھے لیکن سرکاردوجہاں کی آمد سے مدینہ کی فضا میں علم و توحید کا پرچم آب وتاب کے ساتھ لہرا نے لگا اور اہل مدینہ ایک نئے اسلامی معاشرے اور اخلاق و آداب سے آشنا ہو گئے ۔دس سال ایک شاندار دور گزرا،جسکی کوئ نظیر نہیں ملتی اور یہ دور ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے ۔جب فتح مکہ ہوا تمام کفار پریشان تھے کہ اب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )ہمارے ساتھ کیا معاملہ کریں گے،لیکن تمام اپنے مصائب، تکالیفوں اوراذیتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے۔ آپ نے عام معافی کا اعلان فرمایا ۔ عام معافی کے اعلان نے دشمنوں پر ایسے اثرات ڈالے کہ وہی خون کے پیاسے دین کے بدترین دشمن تمام کے تمام آپ پر جان چھڑکنے لگے ۔ ایسے پاکباز اور خدا ترس اور ایسے عاشق رسول بن گیے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی-یہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کریمانہ تھا-کیونکہ رحمت کا لقب اس کائنات کے بنانے والے سے جو ملا تھا ۔آج ہمارے لیے یہ کہنا تو بہت آسان ہے ہم ایمان والے ہیں لیکن اس کے پیچھے جو ہمارے نبی پاک،اہل بیت اور صحابہ کی قربانیاں ہیں وہ ہمیں کبھی نہیں بھولنی چاہئیں۔ اپنے آپ کو اگر سچا عاشق رسول بنانا ہے تو ان کے لائے ہوئے دین کی اتباع ضروری ہے ۔اللہ ہم سبکو سچا عاشق رسول بنائے۔اوران کی سیرت کو اپنانے کی توفیق دے۔
ویسے تمام سیرت کا احاطہ کرنا ایک ناممکن سی بات ہے،بس اتنا کہوں گا۔کہ شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے۔
“تھکی ہے فکر رسا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے
تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے”
صلی اللہ علی محمد و علی آلہ واصحابہ وسلم

اپنا تبصرہ بھیجیں