قسطوں میں خودکشی کا مزا …….. قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

اسلام آباد کے تھانہ رمنا کی حدود سے 8 نومبر کی صبح میٹرو اسٹیشن کے واش روم سے پولیس کو قریباً 12 سال کی بچی کی لاش ملی تھی۔ کچھ دن قبل قاتل پکڑا گیا تو پولیس کے مطابق اسلام آباد میٹرو اسٹیشن پر قتل کی جانے والی 12 سال کی بچی کے ملزم باپ نے انکشاف کیا کہ ’’بیٹی بوجھ تھی اس لئے قتل کردیا۔‘‘ طلباء کے سامنے انتہائی سفاکیت سے ٹارگٹ کلرز نے بار ایسوسی کے سیکریٹری کو قتل کردیا۔ ایک اور میڈیا کارکن نے اپنی زندگی کا چراغ گل کرلیا، مہنگائی سے تنگ ایک اور بے روزگار نے شاپنگ مال میں تیسری منزل سے کود کر خودکشی کرلی۔ سرکاری ہسپتال میں حاملہ خاتون کو بروقت داخل نہیں کیا گیا تو اس نے انتہائی تکلیف دہ حالت میں فٹ پاتھ پر بچے کو جنم دے دیا۔ تھر میں غذائیت کی کمی سمیت دیگر وجوہ کی بنا پر نومولود بچوں کی حالت دیکھ کر لرز جاتا ہوں کہ ہم پاکستان کو دیکھ رہے ہیں کہ ایتھوپیا کے مناظر ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ان گنت ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ ان کے محرکات کو جاننے کے بعد دل و دماغ دہل جاتے اور سمجھ نہیں آتا کہ اس پر کیا کہا جائے، کیا لکھا جائے، کیا کیا جائے۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں، بلکہ ہمیں اپنے ارد گرد ایسے کئی واقعات ملیں گے جو روز اپنی نظروں کے سامنے دیکھتے ہیں، درحقیقت طبقات کی ان درجہ بندیوں نے ہمیں اشرف المخلوقات کے درجے سے بھی محروم کردیا ہے۔
خفیہ دولت کے اظہار کے سلسلے میں جو اعداد و شمار عوام کے سامنے آتے رہتے، وہ واضح کرتے ہیں کہ ملک بھر میں کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کی تعداد سیکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے۔ دولت جمع کرنے کی ہوس میں خاص کر ان حالات میں کہ رشوت ستانی، احباب پروری، جلبِ منفعت، بے انصافی اور دھاندلی کا ہولناک سلسلہ برپا ہے۔ اہل وطن کی اکثریت کی بے چارگی کی عبرت ناک کیفیت کو دیکھنا ہو تو، مملکت کے چھوٹے بڑے شہروں کا جائزہ لیا جائے تو وہاں کے بدتر حالات کو بہتر نہیں کہہ پائیں گے، شہروں سے ہٹ کر دیہات کی طرف چلے جائیں تو وہاں کی حالت جس قدر ناگفتہ بہ نظر آئے گی کہ شہروں کے رہنے والے اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے، اگر ان لوگوں کے کھانے پینے اور رہن سہن کے حالات کا بھی جائزہ لیا جائے تو ایسا کرب انگیز نقشہ سامنے آتا ہے، وہ بیان سے باہر ہے، ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے یہاں کتنی فیصد آبادی ہے، جسے دو وقت پیٹ بھر کر کھانے کو نہیں ملتا۔
کتنے لوگ ہیں جنہیں تن ڈھانپنے کو کپڑا میسر نہیں، کتنے مریض ہیں جو دوا دارو نہ ملنے کی وجہ سے قبروں میں جاپہنچے، کتنے خاندان ہیں جن کے پاس مُردے کی تجہیز و تکفین تک کا سامان نہیں ہوتا، کتنے بچے ہیں جو مناسب غذا (دودھ وغیرہ) نہ ملنے سے کمزور رہ جاتے یا مر جاتے ہیں، کتنے ہیں جو ذرا بڑے ہوکر، سکول نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم اور آوارہ بن جاتے ہیں۔ کتنے گھرانے ہیں جن میں لڑکیوں کو مناسب بَر نہ ملنے کی وجہ سے بڑھاپا دیکھنے کو ملتا ہے، کتنے ایسے خاندان ہیں کہ جن کے پاس اتنا بھی نہیں ہوتا کہ وہ جوڑے کپڑے دے کر بیٹی کو گھر سے باعزت رخصت کرسکیں، کتنی شادی شدہ لڑکیاں ہیں جو مساعد حالات، مناسب خوراک یا انسانوں جیسا سلوک نہ ملنے کی وجہ سے نسوانی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔ کتنی بیوائیں ہیں جن کے پاس سامانِ زیست تو ایک طرف ستر ڈھانپنے کے لئے کپڑے تک نہیں، کتنے یتیم ہیں جن کا پُرسان حال کوئی نہیں، کتنے لاوارث بوڑھے ہیں، جن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ زندگی کے باقی سانس پورے کس طرح کیے جائیں، اگر یہ کوائف معلوم کرنے کے لئے پورے ملک کا نہیں، کسی ایک شہر یا گائوں کا جائزہ لیا جائے تو ایسے درد انگیز مناظر سامنے آئیں گے جنہیں شاید ہی کوئی چشم بینا برداشت کرسکے۔
یہ تصویر کا ایک عبرت ناک رُخ ہے تو دوسرا چہرہ بھی ڈھکا چھپا نہیں، بڑھتی ہوئی فاقہ مستیوں کے مقابلے میں ملک کے نودولتیے خاندانوں کی عیش سامانیوں اور لوٹ کھسوٹ کے قہقہے بھی ہیں، جائزہ لینا ضروری ہے کہ ملک میں کتنے خاندان ایسے ہیں جن میں سے ایک ایک کے پاس بیسیوں (مکانات نہیں بلکہ) محلّات ہیں، جن میں محلے کا محلہ آباد ہوسکتا ہے، کتنے امراء ایسے ہیں کہ جن کے کتّوں پر جو کچھ صَرف ہوتا ہے، اس سے کتنے غریب گھرانے پل سکتے ہیں، کتنے دولت مند ایسے ہیں، جن کے ہفتہ بھر کے تفریحی خرچ سے شہر بھر کے لاعلاج مریضوں کو دوا دارو مل سکتا ہے۔ کتنے نودولتیے خاندان ایسے ہیں جنہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کے پاس کس قدر دولت ہے اور اس میں ہر روز کتنا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک طرف غربت و افلاس کی ویرانیاں اور دوسری جانب دولت و سرمایہ کی ریل پیل سے پیدا شدہ ناہمواریوں کا ایسا نقشہ، جسے کوئی دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ اس معاشرتی زبوں حالی اور اخلاقی گراوٹ کے اسباب پر تفصیل سے کوئی روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہم سب اچھی طرح اس کے اسباب سے آگاہ ہیں۔
ایک صاحب تقریر فرمارہے تھے کہ ’’اتفاق‘‘ میں بہت نقصانات ہیں، ان کے مطابق کہ دیکھو! اتفاق سے ریل گاڑیاں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں اور سیکڑوں جانیں تلف ہوجاتی ہیں، اتفاق سے مکان گر جاتا اور اتفاق سے پورے کا پورا خاندان نیچے آکر مرجاتا ہے، اتفاق سے آدمی کا پائوں پھسل جاتا اور اسے کتنی چوٹیں آجاتی ہیں، وغیر ہ وغیرہ، یہ تو تھے اتفاق کے نقصانات۔ اسے لطیفہ سمجھ کر درگزر کردیں، لیکن ہمارے اردگرد جو کچھ ہورہا ہے، اس کے بعد احترام انسانیت بچی ہی نہیں، جو خود انسانیت کی جان کہلائی جاتی ہے، یاد رکھیں کہ کوئی تہذیب جس کی بنیاد احترامِ انسانیت پر نہ ہو، پھل پھول نہیں سکتی اور جلدہی زوال پذیر ہوجاتی ہے، لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اقتدار پسند لوگ اپنے جھوٹے اقتدار کو قائم یا حاصل کرنے کے لئے کشت و خون کا جواز پیدا کرلیتے ہیں۔ اسلام جس نے احترامِ انسانیت کا سبق دے کر انسانیت کو اخلاقی بلندیوں پر چڑھایا، اس اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں جب ایسے واقعات سامنے آئیں گے تو طبیعتیں یقیناً پریشان ہوں گی۔
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھئے

اپنا تبصرہ بھیجیں