ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات—— حفصہ اکبر علی

میں افطاری کا سامان لے کر کر گاڑی میں بیٹھی تھوڑی دیر سستا رہی تھی کہ مجھے بیک ویو مرر سے ایک مزدور جاتا دکھائی دیا ۔ نحیف بدن پھٹے پرانے کپڑے ایک رومال گلے میں لٹکائے وہ کسی مریض شخص کی طرح خراماں خراماں چل رہا تھا۔ اس کی آنکھیں کسی بنجر زمین سے کم نہ تھیں اس کا حال دیکھ کر میں نے پہچان لیا تھا کہ وہ اندر سے مر چکا ہے یا زندگی کا بوجھ برداشت کرتے ہوئے ختم ہو رہا ہے جب وہ میری گاڑی کے قریب پہنچا تو میں نے باہر نکل کر اسے سلام کیا ۔ میرا سلام سن کر وہ چونکا اور گھبراتے ہوئے وعلیکم اسلام کہنے لگا میں نے پوچھا بھائی کہاں جا رہے ہو اتنے پریشان کیوں ہو؟ میرے سوال پر خاموش رہا میں نے پریشانی بھانپتے ہوئے پوچھا بھائی عید کے کپڑے لے لیے؟ میرے سوال پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور سر نفی میں ہلانے لگا۔ میں نے اسے حوصلہ دینے کی کوشش کی اور پوچھا بھائی کیا ہوا ہے؟ وہ گویا ہوا کہ میں نے پچیس دن ٹھیکے دار کے ہاں مزدوری کی اب وہ میرا فون تک نہیں اٹھا رہا میری مزدوری بھی نہیں دی اس نے۔ میں کپڑے تو کجا میرے گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں ہے۔ مجھے بخار ہو گیا ہے کوئی کام نہیں کر سکتا۔ گھر میں بچے بھوکے بیٹھے ہیں اور میں وعدہ کر کے نکلا ہوں کہ کچھ نہ کچھ کھانے کو لے کر آؤں گا اور یہاں میری حالت یہ ہے کہ مجھ سے چلا بھی نہیں جا رہا۔
اس کی کہانی اور آنکھوں سے برستی بارش نے میں میرا دل پگھلا دیا میں نے اسے اپنی گاڑی میں بٹھایا، راشن خرید کر دیا اور عید کے لئے کچھ پیسے اور اپنے لیے خریدے ہوئے تین جوڑوں میں سے سے ایک اس کو تحفہ دے دیدیا۔ جتنی دیر وہ میرے ساتھ رہا وہ مجھے بار بار منع کرتا رہا ٹھیکیدار کی ہدایت کی دعا کرتا رہا.
یہ حالات ہیں اس ملک میں ایک غریب مزدور کے یہ تو ایک آزاد مزدور تھا لیکن بھٹے کے قیدی مزدوروں کی کیا حالت زار ہو گئی ابھی وہ تو سوچنے سے بھی انسان ڈپریشن کا شکار ہو جائے۔ کیا یہ اسی نبی کی امت نہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ مزدور کی اجرت اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو دو؟ کیا یہ وہی مذہب نہیں جس کے امیر المومنین عمر بن خطاب نے فرمایا تھا کہ میری تنخواہ ایک مزدور کی تنخواہ کے برابر کر دو؟ ان کا یہ قول دنیا کا سب سے بڑا چارٹر آف لیبر رائٹس ہے
۔دوسری طرف مغربی دنیا کو دیکھا جائے تو آئی ایل او عالمی تنظیم یوم برائے مزدور کا قیام عمل میں لایا. 1998 میں
Declaration on fundamental principles and rights of worker کی قانون سازی کی گئی
آئی ایل او نے 110 سیشن کیے اور آخری 2022 میں ہوا۔ اس نے کوئی مسئلہ شاید ہی چھوڑا ہو جس پر قانون سازی نہ کی ہو مگر ہر قوم کو اس پر سائن کر کے پھر ریکٹیفکیشن کا چکر لگانا پڑتا ہے اور پاکستان جیسے ملک جس نے نے 73 کے آئین میں مزدوروں کے حقوق کی بات کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ آج بھی مزدوروں کے حقوق کا استحصال کیا جارہا ہے آج تک اس سے انسانی طاقت سے بڑھ کر کام کروائے جا رہے ہیں اور ورکنگ آورز کی کوئی بھی پابندی نہیں کرتا، نہ ہی اجرت کام کی مناسبت سے دی جاتی ہے۔ پاکستان میں مزدور کوئی دو یا تین فیصد نہیں ہیں بلکہ 37.5 ملین لوگ ہیں جو مزدور ہیں جس میں مڈل کلاس ورکر شامل نہیں ہیں جو بظاہر کسی دفتر میں بیٹھا ہے لیکن اتنا ریموٹ کام کر رہا ہے کہ اپنے رشتہ داروں تک سے اپنی جاب کی تفصیل چھپانے پر مجبور ہے۔
بات ہے رسوائی کی مگر جتنے مرضی آرڈیننس بنا لیں جتنے مرضی کنونشن کروا لیں قانون سازی کر کے صفحے کالے کر دیں لیکن کیا اس پر عمل درآمد کے لیے کوئی ٹاسک فورس بنائی گئی ہے؟ کیا مزدوروں کے حقوق کے لیے سوفٹ جوڈشری اور موبائل پولیس ہم نہیں بنا سکتے یا پاکستان اس معاملے میں دنیا سے ہمیشہ پچاس سال پیچھے رہے گا؟
پاکستان میں اکثر یہ طعنہ دیا جاتا ہے کے پاکستانی یہاں وائٹ کالر جاب ڈھونڈتے ہیں اور باہر جا کر انگریز کے کتے نہلانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ میں کہوں گی کہ آپ ریسرچ کریں کہ پاکستان میں اور باہر کے ممالک میں خصوصا یورپی اور امریکی ریاستوں میں مزدور کے لیے کیا سہولیات ہیں؟ تحفظ، عزت اور انصاف کی فراہمی کا کیا انتظام ہے۔ باہر کے مقابلے میں پاکستان کے مزدور کے کیا حالات ہے؟ اس کا جواب مل جائے گا کہ پاکستان کیوں اپنے ہیومن ریسورس کو تباہ کر رہا ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں مزدور منشیات کا استعمال کر رہا ہے اور اپنی دیہاڑی بڑھانے کے لیے کام اگلے دن کے لیے چھوڑتا ہے۔ کاش عوام و خواص ان ملک کے معماروں کے لیے آسانی پیدا کرنے کا سوچیں جنہوں نے آپ کو بادشاہی مسجد سے لے کر میٹرو بس تک تعمیر کر کے دی ہے۔
تو قادر وعادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کہ اوقات

اپنا تبصرہ بھیجیں