پیشہ ور بھکاری اور غیر ہنر مند پاکستانی ۔۔۔۔ قادر خان یوسف زئی

پاکستانی عوام دنیا بھر میں اپنی مخصوص شناخت اور رویوں کی وجہ سے خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں، وجہ شہرت کئی عوامل پر مشتمل ہے ،تاہم جب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی کے سامنے حالیہ انکشاف میں ایک چونکا دینے والا اعداد شمار سامنے آئے کہ دنیا بھر میں گرفتار ہونے والے بھکاریوں میں سے 90فیصد کا تعلق پاکستان سے ہے ، تو یہ انکشاف مایوس کن ہونے کے ساتھ ساتھ سخت شرمندگی کا باعث بنا اور با حیثیت پاکستانی شرم سے سر جھک گیا۔ اتنی بڑی تعداد میں بھکاریوں کی گرفتاریوں میں پاکستان کا نام شامل ہونا ایک کثیر جہتی مسئلے پر روشنی ڈالتا ہے جو سرحدوں سے ماورا ہے اور ملک کے اندر بڑے مسائل پر بات کرتا ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں گرفتار 90فیصد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اس سے نہ صرف قوم کی شبیہ خراب ہوئی ہے بلکہ ملک کے اندر سماجی و اقتصادی حالات پر بھی سوالات اٹھتے ہیں، کہ کیوں بہت سے پاکستانی غیر ملکی سرزمین پر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں؟۔ اس مسئلے کا ایک تشویشناک پہلو کچھ پیشہ ور بھکاریوں کی طرف سے استعمال کیا جانے والا حربہ ہے جو مذہبی زیارت گاہوں خصوصاً عمرہ سے متعلق مقامات کا استحصال کرتے ہیں۔ جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت سچے ارادوں کے ساتھ اس مقدس سفر کا آغاز کرتی ہے، لیکن ایک چھوٹی لیکن قابل ذکر تعداد بھیک مانگنے، ملک بدری کا خطرہ مول لینے اور پوری کمیونٹی پر سیاہ سایہ ڈالنے میں مصروف ہے۔
بھکاریوں کے ساتھ غیر مند پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا ہونا بھی لمحہ فکریہ ہے ، اس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جاپان نے تین لاکھ 40ہزار ہند مند مانگے تھے ، جس پر بھارت نے ڈیڑھ لاکھ ، نیپال نے91ہزار، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک نے بھی قابل ذکر تعداد میں ہنر مند کارکن جاپان بھیجے لیکن پاکستان صرف 200افراد ہی بھیج سکا ، یہ صورت حال اس حوالے سے بھی حیران کن ہے کیونکہ ملک میں بے روزگار انجینئرز کی تعداد 50ہزار سے زائد ہے۔ مزید برآں، سعودی عرب کی ابھرتی ہوئی لیبر مارکیٹ کے تناظر میں، جو تیزی سے ہنر مند لیبر کی مانگ کر رہی ہے، پاکستان تقریباً 30لاکھ تارکین وطن کا گھر ہے۔ تاہم، ان تارکین وطن کا ایک بڑا حصہ اب بھی کم ہنر مند ملازمتوں میں مصروف ہے، باوجود اس کے کہ وہ سعودی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
جاپان جیسے ممالک میں جانے والے ہنر مند کارکنوں کی کمی سے آگاہی کے بعد پاکستان کو اپنے تعلیمی نظام اور پیشہ ورانہ تربیت کے پروگراموں پر کڑی نظر ثانی چاہیے۔ افرادی قوت کے پاس موجود ہنر اور عالمی جاب مارکیٹ کے تقاضوں کے درمیان واضح مماثلت ہے۔ حکومت کو اسکل ڈیولپمنٹ میں سرمایہ کاری کرنے اور پیشہ ورانہ تربیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے شہریوں کو ان صلاحیتوں سے آراستہ کیا جا سکے جو بیرون ملک اعلیٰ تنخواہ والی ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے درکار ہیں۔ مزید برآں، پاکستان کو اپنی غیر ملکی افرادی قوت کو متنوع بنانے کی راہیں تلاش کرنی چاہئیں۔ جبکہ سعودی عرب2030وژن ایک اہم منزل بنا ہوا ہے، جو نئی منڈیوں اور شعبوں میں رسائی ہنر مند کارکنوں کی وسیع رینج کے لیے مواقع فراہم کر رہی ہے ۔
غیر ہنر مند وں کے مقابلے میں بیرون ملک پاکستانی بھکاری پیشہ ورانہ طور پر ایک منظم نیٹ ورک کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ شرم ناک حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ بیرون ملک بھیک مانگنے کا سہارا لیتے ہیں جو ملکی بہبود کے نظام کی ناکامی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے جامع اصلاحات کی ضرورت ہے، مزید یہ کہ بھیک مانگنے کے لیے عمرہ ویزوں کا غلط استعمال بیرون ملک سفر کی نگرانی اور ریگولیٹ کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ ویزا کے درخواست دہندگان کے لیے اسکریننگ کا ایک زیادہ سخت عمل، آگاہی مہم کے ساتھ، ایسی سرگرمیوں کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے۔ پیشہ ور بھکاریوں کی اسکروٹنی کا عمل دشوار گزار بھی ہے کیونکہ انتہائی منظم انداز میں یہ وہ تمام قانونی تقاضے بھی پورے کرتے ہیں جو سفری قوانین کے لئے ضروری خیال کئے جاتے ہیں ۔ تاہم ایسے لوگوں کو ایئر پورٹ پر ہی روکا جاسکتا ہے جو پہلے ہی بھیک مانگنے یا جیب تراشی کے الزام میں بیرون ملک سے ڈی پورٹ کئے گئے لوگوں کا ریکارڈ رکھنا متعلقہ اداروں کی ذمے داری ہے ۔
پاکستان میں دنیا بھر میں گرفتار 90فیصد بھکاریوں کا گھر ہونے کی خبر قوم کے لیے جاگنے کی کال ہے۔ اسی طرح حرم شریف میں جیب کتروں کی بڑی تعداد گرفتار کی جاتی ہے اور بد قسمتی ان میں بھی سب سے زیادہ پاکستانی شہریت رکھنے والوں کی بتائی جاتی ہے ۔ بیرون ملک بالخصوص عمرہ اور زیارتوں میں بھیک مانگنے اور جیب تراشی کرنے والے ایک پیشہ ور و منظم گروہ ہیں جو مخصوص مذہبی ایام کے لئے بھرپور تیاریوں کے ساتھ ویزے لے کر جاتے ہیں اور وہاں ملک کی بد نامی کا باعث بنتے ہیں ، لیکن انہیں اس کی بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کے پکڑے جانے کی صورت میں انہیں معمولی سزا تو مل جاتی ہے لیکن وطن عزیز کی دنیا بھر میں کتنی بد نامی ہوتی ہے ۔
یہ گہری جڑوں والے سماجی و اقتصادی مسائل کا عکس ہے جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک جانے والے ہنر مند کارکنوں کی کمی معاشی ترقی کے لیے ایک کھوئے ہوئے موقع کی نشاندہی کرتی ہے۔ پاکستان کو ان چیلنجز سے جامع طور پر نمٹنا چاہیے، اپنے لوگوں اور ان کی مہارتوں پر سرمایہ کاری کرنا چاہیے تاکہ اندرون اور بیرون ملک اپنے شہریوں کے روشن مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں